شہید تم سے کہہ رہے ہیں لہو بھلا نہ دینا

Aircraft

Aircraft

لاہور میں ہوائی حملہ کے سائرن خطرہ کا واویلہ کر رہے تھے لیکن لاکھوں زندہ دلان لاہور خطرہ کے سائرن کو یکسر نظر انداز کئے ہجوم در ہجوم آسمان کی طرف منہ اٹھائے اپنے شہبا زوں اور دشمن کے ہوابازوں کی حیات و اجل کی کشمکش کا معرکہ دیکھنے میں محو تھے۔ جیسے کوئی آرٹسٹ اپنے شاہکار کی تخلیق میں۔ ان کے سینوں سے نعروں کی گونج توپ کے گولوں کی طرح گرج رہی تھی۔ لاہور کی سر زمین و آسمان پر ہیجان طاری تھا اور تکبیر کے نعروں سے فضا کانپ رہی تھی۔ لاہوریوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ سر پر لڑتے ہوئے طیاروں کی مشین گنوں کی زد میں کھڑے ہیں لیکن وہ فضائی معرکوں کو دیکھ دیکھ کر یوں نعرے لگا رہے۔

تھے جیسے پتنگ بازی دیکھ رہے ہوں۔ اس معرکے کے دوران ہمارے ہوا بازوں نے دشمن کے دو طیارے مار گرائے۔ ہمارے ہوا بازوں کے سامنے ایک واضع مقصد تھا کہ وہ حق پر تھے اور انہیں خدائے ذولجلال پر پورا بھروسہ تھا اس مقصد نے ہمارے شہبازوں کے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا تھا۔ ان کے دلوں میں کوئی خوف نہ تھا ان کے دماغوں میں کوئی شک و شبہ نہ تھا۔ یہ تھا وہ جذبہ جس نے ہمیں اپنی عسکری قوت سے کہیں زیادہ عظیم کارنامے انجام دینے پر اکسایا اور ہم نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اے پیغمبرۖآ پ مومنین کو جہاد کی ترغیب دیجئے اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہونگے تو دو سو پر غالب ہوں گے۔

اور اسی طرح اگر تم میں سے سو آدمی ہوئے تو ایک ہزار کفار پر غالب آئیں گے ۔ اس وجہ سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو دین کو نہیں سمجھتے( القرآن) جنگ شروع ہوتے ہی یہ آیات پاک فضایہ کے ہوا بازوں میں تقسیم کی گئیں اور جنگ کا تمام عرصہ یہ آیات ہر ہوا باز کے پاس رہیں۔ 6 ستمبر 1965 کو جب بھارت نے پاکستان پر عیارانہ اور بھر پور حملہ کیا تو قصور میں کھیم کرن کے محاذپر مادر وطن کے دفاع کی ذمہ داری بریگیڈئیر احسن رشید شامی کو سونپی گئی۔ آپ نے اپنی مخصوص سر فروشانہ ہمت ، مثالی جرات اور بلند کردار و عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے ٹڈی دل فوج کو اپنے قلیل سر فروش ساتھیوں کی مدد سے شکست فاش دی۔

India

India

10 ستمبر کی صبح فرض کی ادائیگی اور شوق شہادت میں دشمن کے علاقے میں اسکی فوجوںکے قلب میں جا پہنچے اور دشمن کی گولی لگنے سے جام شہادت نو ش کیا۔ بھاگتا ہوا دشمن ان کا جسد خاکی بھی اٹھا کر لے گیا اور آل انڈیا ریڈیو کے مطابق انہیں بھارت میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ جنگ بندی کے بعد 23 فروری 1966 کو اس قابل فخر اور نا قابل تسخیر شہید کا جسد خاکی بھارت سے لایا گیا اور انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قبرستان شہیدان لاہور میں دفن کیا گیا۔ احسن رشید شامی کا تعلق شام پور ضلع جالندر سے تھا اس نسبت سے شامی کہلاتے تھے۔ ان کی یادگار کے طور پر مصطفی آباد قبرستان شہدا سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شامی مینار تعمیر کیا گیا ہے۔

شامی مینار عدم توجہ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اور یہاں پر نشئیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کا تعلق 24 کیولری (ایف ایف) سے تھا انہیں بھی کھیم کرن کا محاذ ہی سونپا گیا تھا۔انہوں نے جوان مردی کے ساتھ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کی وجہ سے دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اور انہوں نے دشمن کے کئی علاقے فتح بھی کر لئے تھے۔ 10 ستمبر کو کئی دن کے بھوکے پیاسے لیفٹننٹ ندیم احمد خان نے جب جنگ کا زور ذرا کم ہوا تو اپنی جیب ایک باغ کے قریب کھڑی کی اور حاجی اسماعیل مسکین کو باغ سے پانی لینے کیلئے بھیج دیا۔ اسی دوران انڈیا کی طرف سے آنے والا ایک گولا لیفٹننٹ ندیم احمد خان کی جیپ کو لگا۔

جس سے وہ جام شہادت نوش کر گئے۔ جنگ ستمبر 1965 سے قبل عید گاہ مولے شاہ والی میں 14 کمروںپر مشتمل ایک مورچہ بنایا گیا تھا جس کو بعد میں اسلحہ ڈپو کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جہاں پر لیفٹننٹ ندیم احمد خان کی دوستی محمد اسماعیل سے ہوئی اور وہ فوج کی خدمت کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے لیفٹننٹ ندیم احمد خان نے انہیں اپنے ساتھ ہی رکھ لیا۔ جو کہ لیفٹننٹ ندیم احمد خان کی آخری سانس تک اس کے ساتھ ہی رہا شہادت کے بعد اس کو خود اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارنے کے بعد بھی لیفٹننٹ ندیم احمد خان سمیت مصطفی آباد میں دفن 55 شہدا کی خدمت کا ذمہ بھی بغیر کسی لالچ کے اپنے ذمہ لے لیا۔

Flood

Flood

اپنی زندگی کے آ خری ایام میں بیماری کی وجہ سے یہ کام اپنے پوتے حاجی محمد یونس کو سونپ دیا۔ خادم شہدا بابا اسماعیل کو فوج کی طرف سے مسکین کا لقب دیا گیا تھا۔ 28مارچ 2009 کو ان کی وفات پر پہلے سے مخصوص کی گئی جگہ پر انہیں لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کے پہلو میں دفن کر دیا گیا تھا۔ لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کی یاد میں مصطفی آباد میں ندیم پارک تعمیر کی گئی۔ یہاں پر ہر سال فوجی دستے ان شہدا کو سلامی دینے کیلئے آتے تھے جس کی وجہ سے شہدا کی قبروں پر ایک میلہ سج جاتا تھا 2010 کے سیلاب کی وجہ سے فوجی دستوں کی طرف سے سلامی دینے کی تقریب کینسل کر دی گئی تھی۔

جو کہ تا حال بند ہے۔ اب ہر سال مقامی سطح پرکبڈی، بچوں کے تقریری مقابلے اور ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں۔ 80 افراد پر مشتمل مجاہد فورس للیانی کے جوانوں نے 11 ستمبر سے 25 ستمبر تک واہگہ سیکٹر پر خدمات سر انجام دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان شہدا کی یادگاریں انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔ شہدا کی قبروں کا فرش اور شامی مینار جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بارش کا پانی ان شہدا کی قبروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ جبکہ خستہ حالت شامی مینار پر نشئی حضرات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لیفٹننٹ ندیم احمد خان کی یاد میں بننے والی ندیم پارک کی چار دیوار مکمل ٹوٹ چکی ہے۔

لوگوں نے اس میں جانور باندھنے شروع کر دئیے ہیں جبکہ نشئی حضروت اپنا ایندھن بھرنے کیلئے اسے ائیر پورٹ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ غرض کہ ان شہدا کی یاد گاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہم تو آج تک سنتے آئے تھے کہ زندہ قومیں اپنے شہدا کو بھولا نہیں کرتی نہ جانے کیوں صاحب اقتدار افراد کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ ان شہدا کی یادگاروں پر اب تک ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد نواز شریف، میاں محمد شہباز شریف، حنیف رامے، ملک معراج خالد، خدا بخش بُچہ ودیگر قد آور شخصیات شرکت کر چکی ہیں۔

لیکن صرف سیاست چمکانے اور فوٹو سیکشن کروانے کیلئے آج تک کسی بھی سیاستدان نے ان شہدا کی آخری آرام گاہ پر چھت، ان کی آخری آرام گاہ کے خستہ حال فرش کی مرمت احسن رشید شامی کے نام پر بننے والے شامی مینار اور لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کے نام پربننے والا ندیم پارک کیلئے کسی بھی گرانٹ کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے آج ان شہدا کی یادگاریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ندیم پارک نشئیوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ لوگوں نے وہاں پر اپنے جانور باندھنا شروع کر دئیے ہیں۔ اس کی چار دیواری ختم ہو چکی ہے۔ اور کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آج ان شہدا کی یادگاروں کو کون دوبارہ آباد کریں گا شہدا کی روحیں ہم سے سوال کناں ہیں شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں، لہو ہمارا بھلا نہ دینا۔
تحریر : محمد عمران سلفی