گوجرانوالہ : خطرناک دماغی مرض میں مبتلا ہونے والے بعض مریض معذور ہونے کے ساتھ ساتھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ایسے میں اگر کوئی 9 سال سے بیماری میں مبتلا ہو لیکن بیماری بھلاکر ایم ایس سی فرسٹ ڈویژن سے پاس کر لے تو یقینا یہ ہمت کی ایک اعلی مثال ہے۔ اس کی مثال ذہنی مرض میں مبتلا باہمت طالبہ شہلا گل ہیں جن کا کہنا ہے کہ بہت ساری ایسی خواہشات ہیں جو قسمت میں ہوئیں تو پوری ہو جائیں گی ورنہ ایسے ہی بیماری سے فائٹ کرتے کرتے چلی جاوں گی۔
بیماری سے لڑنے کا عزم لیکر اپنی منزلیں طے کرنے والی شہلا گل کو لرزتے ہاتھ اور دیواروں کا سہارا لیکر چلنا بھی اس کی منزل سے نہ روک سکا، حالآنکہ بیماری نے اس کو ایسا جکڑا کہ معذور کر دیا مگرشہلا نے تعلیم نہیں چھوڑی۔ اس کا کہنا ہے کہ کیا اتفاق ہے کہ ایم ایس سی کرنے کیلئے جن مضامین کا انتخاب کیا وہ ہی اس کی بیماری اس پر ظاہر کرنے کا سبب بنے۔
شہلا گل کے مطابق ایم ایس سی کے تھرڈ سیمسٹر میں جب وہ چیپڑ میں ڈس ارڈر پڑھ رہی تھیں تو انہیں علم ہوا کہ یہ تمام علامیتں تو ان ہی میں ہیں۔ لاٹھی کا سہارا لیکر اپنی ماں کے ساتھ چلنے والی شہلاگل ملٹی پل اسکورسس کی مریضہ ہے جو علاج کے لیے کئی سال سے گوجرانوالہ سے لاہور جاتی ہے۔
نیورسرجن پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ کا کہنا ہے کہ یہ بیماری دماغ کی نالیوں میں سوجن ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ انسانی اعصاب پر حملہ کر کے انسان کو مکمل طور پر معذور کر دیتی ہے۔ شہلا گل کے والدین کی آنکھوں میں بھی اپنی بیٹی کے لیے بہت سے خواب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سب کچھ بیچ کر شہلا گل کی پڑھائی پر لگا دیا لیکن اب تھک گئے ہیں، شہلاگل کے ہاتھ کام کرنے کے قابل نہ رہے تو اس نے پنجاب یونیورسٹی سے رائٹر منظور کراکے امتحانات دئیے لیکن اب وہ اس بیماری کا مکمل علاج چاہتی ہے لیکن اس کے لیے اس گھرانے کے پاس وسائل نہیں۔
شہلا گل اپنے والدین کا وہ پھول ہے جو ہر سو اپنی خوشبو پھلانا چاہتا ہے مگر انتظار ہے تو کسی ایسے مسیحا کا جو اس پھول کو مرجھانے سے بچا سکے اور شہلا سائکائٹرسٹ بن کر ملک وقوم کی خدمت کر سکے۔