امریکی جارحیت اور مسلم حکمرانوں

Police

Police

ایک دفعہ ایک باغبان اپنے باغ کی طرف جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ گاؤں کا نمبر دار، نائی اور ایک پولیس والا اس کے باغ کی طرف سے آرہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں پھل ہیں جو انہوں نے اس باغبان کے باغ سے توڑے ہیں۔ ان کی تعداد 3 تھی اور باغبان اکیلا تھا، اسے بُرا بھی لگ رہا تھا لیکن وہ مجبور تھا کہ وہ تعداد میں زیادہ تھے۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ جب وہ لوگ قریب پہنچے تو باغبان نے نائی سے کہا نمبر دار تو ہمارے گاؤں کا بڑا ہے۔

اور پولیس والا ہمارا رکھوالہ ہے، انہوں نے پھل توڑے، یہ ان کا حق ہے، مگر تونے یہ جسارت کیوں کی۔ باغبان نے نائی کو مارنا شروع کر دیا۔ باقی سب خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ پھر اس نے پولیس والے سے کہا، تو رکھوالا ہے اور سرکار سے اس کی تنخواہ وصول کرتا ہے اور ساتھ چوری بھی کررہا ہے۔ اس نے پولیس والے کو بھی مارنا شروع کر دیا۔ آخر میں اس نے نمبر دار سے کہا، تُو تو گائوں کا بڑا ہے۔ جب تو ہی ایسے کام کرے گا تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا۔

باغبان نے اس کو بھی بے عزت کرنا شروع کر دیا۔ پولیس والا اور نائی اس لیے خاموش رہے کیوں کہ جب ان کی باری تھی تو وہ خاموشی سے تماشا دیکھ رہا تھا۔ اب اس کے ساتھ بھی ٹھیک ہو رہا ہے۔ بالکل اسی طرح یہود و ہنود مسلم ممالک کو ایک ایک کر کے مار رہے ہیں اور باقی مسلم ممالک اس وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں کہ جب ان کی پٹائی ہو رہی تھی تو یہ خاموش تھے۔ دیگر اسلامی ممالک بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیکر چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گذشتہ اڑھائی عشروں سے مسلم ممالک غیر مسلم طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں۔ آج کل امریکہ بہادر اکیلا ہی دنیا کا سپر مین بنا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک محلے میں اگر ایک بدمعاش رہتا ہو تو محلے والوں کا جینا حرام کر دیتا ہے۔ کیو ں کہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اسکی طاقت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ من مانی کرنے سے سے ہر گز نہیں ہچکچاتا۔ اسی لیے ایک بدمعاش اپنے علاقے میں کسی دوسرے کی طاقت کو برداشت نہیں کرتا۔

U.S.

U.S.

90 ء کی دہائی سے پہلے دنیا میں ایک کی بجائے دو سپر طاقتیں تھیں ۔یہی وجہ تھی کہ امریکہ بلاجواز کسی پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ ویتنام کی جنگ میں روس نے اس کے دانت کھٹے کیے تو اگلے دو عشروں تک دنیا میں امن رہا۔ امریکہ کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ ایسے ملک پر حملہ کرتا ہے جس کے وسائل پر بھی اس کا قبضہ ہو سکے۔امریکی تھنک ٹینکس کا کہنا ہے کہ امریکہ اسلام سے ہر گز جنگ نہیں چاہتا بلکہ اسلام کے اندر جنگ چاہتا ہے۔

اس نے آج ہر مسلم ملک میں اپنے کارندے چھوڑ رکھے ہیں جو مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ سیاسی اور معاشی تقسیم سے بھی وہ فائدہ اٹھا تا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب افغانستان میں، ڈیزی کٹر بم جو پتھروں کو پھاڑ کر راکھ میں تبدیل کردیتے ہیں، نہتے مسلمانوں پر برسائے جارہے تھے تو افغانستاں کے چاروں طرف مسلم ممالک میں سے کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہ کی۔بلکہ اس وقت کی پاکستانی حکومت نے امریکہ سے ڈالر لیکر اپنے ہی شہریوں کو اس کے حوالے کیا۔

امریکہ کو مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بہت تشویش ہوتی ہے لیکن کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم اور کئی دہائیوں سے حالت جنگ میں مبتلا مسلمانوں پر اس کی نظر نہیں پڑتی۔ پاکستان اور ایران کے ایٹمی پروگراموں کی فکر اسے کھائے جا رہی ہے۔ وہ زمین اور فضا سے ان کی نگرانی کرنے کی کوشش میں ہے۔ اگست 1945 میں جاپان پر ایٹم بم کس نے برسائے۔ ایک ہی دن میں وہاں 60 ہزار افراد کو چند لمحوں میں کس نے موت کی نیند سلا دیا تھا۔

Syria

Syria

شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی کوئی مہذب ملک حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کی آڑ میں امریکہ کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ مذید لوگوں کی جان لے۔ آج اسے عرب دنیا میں بادشاہت اور آمریت بہت تکلیف دے رہی ہے جبکہ ماضی میں وہ شاہ ایران سمیت کئی آمروں کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ پاکستان میں اس نے تین فوجی آمروں کی تین عشروں تک حمایت ہی نہیں کی بلکہ ان کی مدد بھی کرتا رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

جس نے بارہ سال ہوئے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو اپنے علاقائی اور مسلکی تنازعات بھلا کر متحد ہونا چاہیے اور امریکہ و یورپ کیساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے لیے خود
داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اپنے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کو ہر گز قبول نہ کیا جائے اور مسلم امہ کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

مسلم ممالک کو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا الگ بلاک بنانا چاہیے۔ تاکہ اسلام کی وہ تابناکی واپس آسکے جس پر دیگر اقوام رشک کیا کرتی تھیں۔ یہی اس امت کی شان ہے جس کو اللہ نے بھی اپنے پاک کلام میں بیان فرمایا ہے۔ اقبال نے اسی اسلامی بھائی چارے کے متعلق کہا تھا کہ اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے۔

Mohammad Gulzar Chaudhry

Mohammad Gulzar Chaudhry

تحریر : محمد گلزار چوہدری