واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر اوباما نے جنگ سے بچنے کے لیے شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیار عالمی برادری کے حوالے کر نے کی روسی تجویز پر کہا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے یہ ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ ادھر اوباما کو اپنا موقف واضح کرنے کے لیے امریکی سینیٹ نے مزید وقت دے دیا ہے۔ شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی پر امریکی سینیٹ میں بدھ کو ووٹنگ ہونا تھی۔ کل کے اجلاس میں قرارداد پر بحث سمیٹتے ہوئے سینیٹ کے اکثریتی لیڈر، سینیٹر ہیری ریڈ نے اعلان کیا کہ ووٹنگ بدھ کو نہیں، رواں ہفتے کے آخر میں ہو گی۔
سینیٹر ریڈ کا کہنا تھا کہ اس تاخیر سے صدر اوباما کو سینیٹرز اور امریکی عوام پر اپنا موقف واضح کرنے کا وقت ملے گا۔ اوباما شام پر حملے کی قرارداد کی حمایت کے لیے آج سینیٹرز سے ملاقات بھی کریں گے اور قوم سے خطاب بھی۔ سینیٹ کے 60 ووٹ ملنے کے بعد یہ قرارداد ایوانِ نمائندگان میں جائے گی۔ وہاں سے منظوری حاصل ہوئی تو اوباما کو کارروائی کا اختیار مل جائے گا۔ اس پورے عمل میں اب ایک ہفتہ سے زیادہ وقت لگنے کا امکان ہے، لیکن اس سے پہلے 6 مختلف امریکی چینلز کو انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ شام سے کیمیائی ہتھیار عالمی کنٹرول میں لانے کا مجوزہ روسی منصوبہ ایک اہم اور مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔
اوباما کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیرِ خارجہ جان کیری کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ روسی حکام سے مل کر یہ دیکھیں کہ یہ منصوبہ کتنا قابلِ عمل ہے۔اوباما نے کہا کہ شام کے مسئلے کا دیر پا سفارتی حل نکل آئے جس سے عالمی برادری بھی مطمئن ہو، تو امریکا اس کا حامی ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر کانگریس نے شام پر حملے کی منظوری نہ دی تو کیا کرنا ہے؟ اس کا ابھی فیصلہ نہیں کیا۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف کی جانب سے فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے شام حکومت کو کیمیائی ہتھیار عالمی برادری کے حوالے کرنے کی تجویز کو جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے بھی مثبت قرار دیا تھا۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اگر شام اس پر راضی ہو بھی جاتا ہے تو یہ بات یقینی بنانی ہو گی کہ ایسا صرف وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں کیا جا رہا۔ کل ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں شام کے صدر بشار الاسد نے ایک بار پھر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے شام پر حملہ کیا تو بھر پور جواب دیا جائے گا۔