پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو صدر کا عہدہ نہ تھا بلکہ اس کی جگہ گورنر جنرل پاکستان کا عہد ہ رکھا گیا۔ اور گونر جنرل ہی پاکستان کا سر براہ سمجھا جاتا تھا پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بانی پاکستان قا ئد اعظم محمد علی جناح تھے۔ جنھوں نے ایک سال میں ہی اس عہدہ کے تمام کام احسن خوبی سے انجام دینے کی پوری کوشش کی اور عوام کے دل میں اپنے رہنماوں کی محبت کا بیج بو دیا۔
آپکی وفات کے بعد ایک وقت آیا کے ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سکندر مرزا پاکستان کے قا ئم مقام گورنر جنرل اور پھر گورنر جنرل بنے مگر شاید یہ عہدہ ان کو پسند نہ آ یا اس لئے وہ ٥ مارچ ١٩٥٦ کو نئے آئین میں درج شدہ ضابطے کے مطابق پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہو گئے اور ٢٣ مارچ ١٩٥٦ سے بطور صدر کام کا آغاز کیا۔ اس طرح سکندر مرزا کے صدارت کے عہدے پر فائز ہونے سے پاکستان کی تاریخ میں صدارت کے عہدے کی بنیاد پڑی۔
اس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں کئی صدور آئے کسی نے صدارت کی کرسی پر براجمان ہونے کے لئے بندوق کا سہارا لیا تو کوئی باقاعدہ طور پر آئینی صدر منتخب ہوئے۔ وقت چلتا گیا پھر ٢٠٠٨ میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر کہ پاکستان پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آگئی اور جناب آصف علی زرداری کا نام بطور صدر کے لئے تجویز کیا گیا اور ٦ ستمبر ٢٠٠٨ کو صدارتی انتخاب میں آپ ٧٠٢ میں سے ٤٨١ ووٹ حاصل کر کہ پاکستان کے گیارہویں صدر منتخب ہوئے۔
PPP Pakistan
یہ دور ہمارے سامنے گزرا اس میں کئی نشیب و فراز آئے مگر جمہوریت کی کشتی کامیابی سے منزل کی طرف رواں دواں رہی یہ سفر نہایت کٹھن اور دشوار گزار تھا َلوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہا۔ مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کر دیا اور ساتھ ساتھ دہشت گردی کے قدم بھی مظبوط ہو گئے ان کے دور میں کئی اہم واقعات ہوئے۔
ایبٹ آباد کا آپریشن، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ، ریمنڈڈیوس کیس اور کئی اہم واقعات ہوئے۔بجلی کا بحران شد ت اختیار کرتا چلا گیا بے روز گاری اپنی انتہا کو چھونے لگی صحت و تعلیم کے انتظامات عنقا ہو گئے امن و ا مان کی صورت حال کا تو خدا ہی حافظ تھاکراچی اور بلوچستان میں سیکورٹی ادارے بھی بے بس ہو گئے ملک روز بروز تباہی کی طرف جاتا رہا مہنگائی نے غریب عوام سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی۔ پاکستانی روپیہ اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا۔ مگر تمام سیاستدان من مانی بھر تیوں اور کرپشن میں اس قدر مصروف تھے کوئی اس طرف توجہ نہ کر سکا۔
انہی حالات میں عوام نے ٥ برس نہایت مشکل سے گزارے۔ یہ پانچ سال صرف عوام کے لئے ہی مشکل نہ تھے بلکہ اس دورمیںحکومت کو بھی کئی طوفانوں کا سامنا کرا پڑا۔ ملک نازک دور سے گزرتا رہا کئی صحافی حضرات اور سیاست دانوں کو اسلام آباد میں فوجی بوٹوں کی آواز تک سنائی دینے لگی اور کبھی جمہوریت خدا حافظ کی ندابلند ہونے لگی مگر ان تمام حالات کااس وقت کے صدرپاکستان نے جواں مردی سے مقابلہ کیا۔
ان تمام طوفانوں میں آپ مظبوط اعصاب کے مالک ثابت ہوئے آپ نے پاکستان کے ستاسٹھ سالہ دور میں نئی تاریخ رقم کردی اور پاکستان کے پہلے آئینی صدر بنے جنھوں نے اپنا پانچ سالہ دور مکمل کیا اور گارڈ آف آنرلے کر باعزت طور پر ایوان صدر سے رخصت ہوئے۔
اپنی سیاسی بصیرت سے جمہوریت کی ساکھ کو آمریت سے بچائے رکھا ہر شخص کی درسگاہ مختلف ہوتی ہے اور زرداری صا حب کی درس گاہ جیل ثابت ہوئی گیارہ سال جیل میں رہنے سے آپ نے صبر سیکھا اور ان نشیب و فراز میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
اس کا انعام آج جمہوریت نے پایا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو کے پرچم تلے ا یک نئی تاریخ رقم کی اور یہ کہہ کہ اب وزیر اعظم یا صدر نہیں بنوں گا ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاوس کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ دیا۔