11 ستمبر 2001 کو القاعدہ کے 19 ارکان نے چار کمرشل ہوائی جہازوں کو اغوا کر لیا تھا۔ دو جہازوں کو نیویارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا اور تیسرا جہاز پینٹاگون، واشنگٹن ڈی سی سے ٹکرا کر تباہ کیا گیا۔ چوتھا جہاز ہائی جیکرز اور مسافروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے شانکسول، پینسلوانیا میں تباہ ہوا۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی دہشتگردی کی عالمی صورتحال پر مرکوز ہوگئی۔ جواب کے طور پر جارج ڈبلیو بش کے زیر صدارت امریکی حکومت نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بہت سارے فوجی اور قانونی آپریشن شروع کئے۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ 8 اکتوبر 2001 میں شروع ہوئی جب امریکہ کی سربراہی میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کاروائی شروع ہوئی تا کہ القاعدہ کی تنظیم اور اس کے لیڈروں کو باہر نکالا جائے۔ 11 ستمبر کے واقعات نے امریکی تحفظ کیخلاف ہونے والے کسی بھی واقعے کے خلاف پیشگی حملوں کی پالیسی کو جنم دیا جسے بش ڈاکٹرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2002 کو قوم سے خطاب کے دوران سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے شمالی کوریا، عراق اور ایران کو برائی کا محور قرار دیا اور بتایا کہ یہ ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئر کا ان حملوں کے دو روز بعد کہنا تھا کہ ہم آزادی اور تمام اچھی اقدار کا دفاع کریں گے۔ یہ انتہائی اہم جملہ اب گوانتانامو، ابوغریب اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے ہزاروں انسانوں کی لاشوں کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔ سابق امریکی صدر کا یہ موقف اب ایک داغدار دھبے کے سوا کچھ بھی نہیں رہا۔
یہ فقرہ نہ صرف نائن الیون کے متاثرین کے مذاق اڑانے کا موجب بنا ہے بلکہ اس نے ظالم اور مظلوم کے کردار کو بھی الٹ کر رکھ دیا ہے۔ اسی سال امریکہ نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کر دئیے۔ اقوام متحدہ کی کئی قراردوں کی ناکامی اور صدام حسین کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مارچ 2003 میں عراق پر حملہ کر دیا۔
اس حملے کے جواز کے طور پر امریکی حکومت نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ جنگ کے بعد بہت کم مقدار میں غیر ایٹمی ہتھیاروں کے چند ذخیرے ملے اور اس کے بعد امریکی حکومت نے اقرار کیا کہ انہوں نے غلط جاسوسی اطلاعات پر حملہ کیا تھا۔