جسمانی صحت کیلئے ضروری ہے کہ انسان جو غذائیں کھائے، پیئے وہ ناقص، ملاوٹ زدہ، مضر، جلی ہوئی، کچی، اتنی باسی کے بدبودار ہو جائیں اور بدذائقہ نہ ہوں بلکہ صاف ستھری، عمدہ اور جسم کی ضرووت کے مطابق تعداد میں ہوں تاکہ جسم کو پوری توانائی میسر آسکے۔
آج انسان جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کے لئے حد سے زیادہ فکر مند ہے۔ اپنے جسم کو آرام و سکون فراہم کرنے کیلئے ہم اپنے روحانی سکون کو تباہ کرچکے ہیں۔ ہروقت جسم کی فکر میں زیادہ کمانے کی کوشش میں ایک دوسرے کو ملاوٹ زدہ اشیاء فروخت کرکے ہم نے جسم و روح دونوں کی صحت کو تار تار کر رکھا ہے۔
آج معاشرے میں عام پائے جانے والا لالچ، حسد،حرس، تکبر، زر، زمین اور دولت کے ساتھ حد سے زیادہ محبت نہ تو جسمانی صحت کیلئے اچھا ہے اور نہ ہی روحانی صحت کیلئے جبکہ انسان کے جسم و روح کی بہترین غذائیں جن میں ایمان، خلوص، ایک دوسرے سے محبت اور سب سے بڑ کر اللہ تعالیٰ کی یاد آج مسلمان معاشرے میں بھی ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن قریم میں فرماتا ہے کہ”بلکہ ان کے دلوں پر زنگ ہے ان کے گناہوں کے سبب ”نبی کریم کا فرمان عالیٰ شان ہے کہ ”جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے ۔پھر جب وہ توبہ استغفار کرتا ہے تواس کا دل صاف ہوجاتا ہے لیکن جب وہ پھر گنا ہ کرتا رہتا ہے تو وہ سیاہ داغ پھیل کر سارے دل پر چھا جاتا ہے پس یہ ہے زنگ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن قریم میں فرمایا ہے ”ہماری دنیاوی ملاوٹ نے نہ صرف ہمارا دنیاوی سکون و راحت چھین لیا ہے بلکہ اس بے ایمانی نے ہمارے دلوں کو بھی سیاہ داغ بنا دیا ہے۔
اگر یوں کہا جائے کہ جب ہم کسی کھانے پینے کی چیز میں ملاوٹ کرتے ہیں تو اپنے اور دوسروں کے جسم و روح کو بیمار تو کرتے ہی ہیںاُس کے ساتھ ساتھ بارگاہ الٰہی سے بھی رد کر دئیے جاتے ہیں۔ یعنی ہماری صرف ایک ملاوٹ جو وقتی طور پر بہت فائدہ مند لگتی ہے سوائے خسارے کے کچھ نہیں۔ میری نظر میں کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرنے والا بھی بہت بڑا ظالم ہے، کسی شخص پر تشدد کرنے والا ظالم تو صرف ایک فرد پر ظلم کرتا ہے لیکن کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والا پورے معاشرے کی رگوں میں زہر گھول دیتا ہے ۔ہر ظالم اپنے ظلم کو چھوٹا اور کم تصور کرتا ہے یہی وجہ ہے جو ظالم کے ظلم کو تما م حدو دسے تجاوز کرنے پر اُکساتی ہے۔
گوالا دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتے وقت اپنے آپ کو مخاطب کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرنا غلط ہی نہیں بلکہ گناہ بھی ہے، ابھی گوالے کے اندر کا اچھا انسان دودھ میں پانی کی ملاوٹ نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کرپاتا کہ اندرکا طاقتور ظالم، لالچی، حرسی، خبیث شیطان فورا سینکڑوں دلیلوں کے ساتھ حملہ کر دیتا ہے۔ دودھ میں پانی نہیں ڈالو گے تو جانوروں کا مہنگا چارہ کہاں سے خریدو گے؟ گاڑی خراب ہوگئی تو کہاں سے ٹھیک کروائو گے؟ کل مہمان بھی آسکتے ہیں اُن کے کھانے پینے کا انتظام بھی تو کرنا ہے۔
کل اگر گھر میں کوئی بیمار پڑگیا تو بھیک مانگ کر علاج کروائو گے؟ آنے والے دنوں میں دودھ کی ڈیمانڈ بڑ جائے گی نئی گائے، بھینس بھی تو خریدنا ہو گی؟ ہاں پرسوں چچا کے بیٹے کو جیل میں ملنے بھی جانا ہے وہاں بھی دوچار ہزار کی ضرورت پڑے گی؟ اس برے انسان کے پاس اس کے علاوہ بھی کئی دلائل ہوتے جو اچھے لیکن کمزور انسان کو زیر کردیتے ہیں اور وہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کر دیتا ہے بات یہاں ختم نہیں ہوتی جب گوالا دودھ فروخت کرتا ہے تویہ بُراانسان پھر سے حملہ آوار ہوتا ہے اور اُسے بتاتاہے کہ اگر ایک لیٹر دودھ کے پیسے لے کر تھوڑا کم دو گے تو کسٹمر کو پتا بھی نہیں چلے گا اور تجھے اچھا حاصا فائدہ ہو جائے گا۔
Milk Blending
قارئین محترم یہ مثال تو میں نے آپ کے سامنے گوالے کے نام سے پیش کی ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے میں ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کو ملاوٹ زدہ اشیاء ناپ تول میں بے ایمانی کے بعد فروخت کرتا ہے، فروٹ والے کی سن لیں وہ اچھے فروٹ کا ریٹ طے کرنے کے بعد بھی اپنے طریقے سے ناقص فروٹ ڈال دیتا ہے۔ ایک سال پہلے میرا ایک بیمار عزیز جناح ہسپتال میں زیر علاج تھا میں اُس کی تیماداری کیلئے گیا تو مجھے ہسپتال پہنچ کر احساس ہوا کہ کوئی فروٹ ہی لے لوں بیمار کیلئے، میں ہسپتال کے گیٹ کے پاس موجود فروٹ سٹال پر پہنچا، فروٹ والے سے آلو بخار کا ریٹ پوچھا، اُس نے آلوبخارے کا ریٹ 200 روپے فی کلو بتایا جو عام بازار اور سرکاری ریٹ لسٹ کے مطابق زیادہ تھا، پھر بھی میں نے اُسے کہا بھائی مجھے 3 کلو آلو بخارہ لینا ہے۔
میں آپ سے ریٹ بھی کم نہیں کروائوں گا لیکن آپ مجھے ایک بھی دانہ خراب نہ ڈال کر دینا۔ اُس نے کہا جی ٹھیک ہے، یہ کہہ کر وہ تیزی سے کاغذ کے لفافے میں آلو بخارا ڈالنے لگا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے آدھے سے زیادہ خراب آلو بخارا ڈال دیا ،جب میں نے وہ آلو بخارا لینے سے انکار کر دیا تو وہ آپے سے باہر ہوگیا اور کہنے لگا جناب یہ تو آپ کو لینا ہی پڑے گا۔ میں نے کہا بھائی میں نے آپ کی مرضی کا ریٹ دیا ہے جو بازار سے کہیں زیادہ بھی ہے پھر بھی آپ وعدے کے مطابق اچھا آلو بخارا دینے کی بجائے آدھے سے زیادہ خراب دے رہے ہیں لہٰذ امیں یہ نہیں لوں گا۔ اتنے میں فروٹ فروش نے فون کرکے دو پولیس ملازم بلا لئے جو آتے ہی کافی گرم سرد ہونے لگے میں نے اپنا تعارف کروائے بغیر ساری بات اُن کے گوش گزار دی لیکن فروٹ فروش کے ہمسائے اور حمائتی نکلے اور بولے جناب یہ آلوبخارا لیں اور دکاندار کے پیسے شرافت کے ساتھ ادا کردیں ورنہ آپ کو تھانے لے جا کر بند کر دیا جائے گا۔
میں نے اُن سے کہا جناب آپ مجھے تھانے لے چلیں لیکن میں یہ آلو بخارا نہیں لوں گا، یہ فروٹ فروش سرکاری ریٹ لسٹ سے ڈبل ریٹ میں بھی اچھا فروٹ نہیں دے رہا اور آپ سرکاری ملازم ہوکر اس کی حمایت کر رہے۔ میری بات سن کر ان میں سے ایک نے میری جیب میں ہاتھ ڈالا اور پرس نکال کر چھ سو روپیہ فروٹ فروش کو دینے کے بعد پرس واپس میری جیب میں ڈالتے وقت میرا وزٹنگ کارڈ دیکھ کر بولا ان کو جانتے بھی ہو جن کا وزٹنگ کارڈ جیب میں لیئے پھرتے ہو؟ غصہ تو مجھے بہت آ رہات ھا لیکن پھر بھی میں ہنس کر کہا جی نہیں ان کو اس لئے نہیں جانتا کیونکہ یہ میرا ہی وزٹنگ کارڈ ہے۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ پولیس والے کے پسینے چھوٹ گئے اور مارے گھبراہٹ کے فروٹ فروش کو گالیاں دینے لگا، میرے پیسے واپس کئے اور معافی مانگنے لگا۔
قارئین محترم اگر میں باقی کہانی بھی سنانے بیٹھ گیا تو آج کے موضوع ملاوٹ سے دور نکل جائوں گا۔ ملاوٹ ایک ایسا زہر ہے جو آج ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرطان کی ماند پھیل چکا ہے۔ شاید ہی کوئی فرد آج ملاوٹ کی لعنت سے محفوظ رہا ہو۔ ہر فرد اپنی بے ایمانی چھوٹی اور کم تصور کرکے ملاوٹ اور ناپ تول میں بے ایمانی کرنے میں مصروف ہے۔ حکومت ملاوٹ کو روکنے میں ناکام نہیں ہے کیونکہ ناکام توتب ہوتی جب روکنے کی کوشش کرتی۔ حکومت نے کبھی بھی ملاوٹ کو جرم تصور کیا اور نہ ہی روک تھام کرنے کی کوشش کی۔ شہری انتظامیاں ریٹ لسٹ صرف اپنی فیس وصول کرنے کی غرض سے دکانداروں تک پہنچاتی ہے اس کے علاوہ اُس ریٹ لسٹ کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی عوام کوکسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر : کاہنہ نو لاہور imtiazali470@gmail.com