ٹارگٹڈ آپریشن یا ڈرامہ

Karachi

Karachi

بد قسمت کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ جہاں رات کے پچھلے پہر بھی رونقیں ہوا کرتی تھی آج اُس کی رونقوں کو سناٹے نگل گئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی مسکراہٹیں آج اداسیوں میں بدل گئیں ہیں۔ یہاں سے مچلتے ہوئے قہقے آہوں سسکیوں اور فریادوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

زندگی کی ُپررونق صبح نہ جانے کب موت کے اندھیروں چھپ جائے کیسی کو معلوم نہیں یہ ہی وجہ ہے یہاں کہ مکینوں کی مسکراہٹیں نایاب ہو تی جا رہی ہیں۔ کراچی کے حالات تو تقریبا گزشتہ تین دھائیوں سے خراب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ خرابی کی اس لہر میں کبھی خزاں تو کبھی بہار آتی رہتی ہے لیکن جمہوریت کے سابقہ اور موجودہ دور میں بدامنی کی لہریں جوش پکڑتی جا رہی ہیں۔

ٹارگٹ کلرز نے سیاسی اور سماجی اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ ورکرز کو بھی نشانے پر رکھا ہوا ہے۔اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی دل کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں جس میں مقرر وقت میں تاوان نہ ملنے مغوی کو خالک حقیقی سے ملا دیا جاتا ہے۔

پھر مزید بھتہ خوروں نے شہربھی کے چھوٹے بڑے تاجروں سے بھتہ وصول کرنے کیلئے نت نئے طریقے اپنائے ہوئے ہیں جو تاجروں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر کے بھتہ وصول کر کے ہاتھ گرم کر رہے ہیں۔ بم دھماکوں نے تو ہر شہری کی جان مٹھی میں کر رکھی ہے۔ ہر شہری ہی اس کے خوف سے پریشان ہے۔ شہر میں معشیت اور انسانوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔

شہروں کے گردو نواح کے لوگ بھی سکون کی زندگی بسر کرسکتے۔ جرائم پیشہ افراد شہر اور اس کے گردونواح میں ایک دوسرے سے علاقے چھیننے کی کوششوں میں طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں جس سے علاقہ مکینوں کا جینا دوبر ہو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو کراچی کی صورت حال کافی حد تک پریشان کرتی رہی جس کو کنٹرول کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو بار بار تلقین کی گئی اور و فاق کی جانب سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن صوبائی حکومت کیاکر سکتی تھی جو اس وقت کچھ نہ کر سکی جب صوبہ میں بھی اور وفاق میں بھی ان کی حکومت تھی اب کیا خاک امن قائم کرے گئی ۔نواز حکومت نے صوبائی جانب سے کھڑے ہاتھ دیکھ کر خود قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا جس میں پہلا قدم نواز شریف صاحب کا کابینہ سمیت کراچی کا دورہ تھا جس میں اہم شخصیات سے سکیورٹی حوالے سے ملاقاتیں تھی۔

نواز شریف نے مزار قائد پر حاضری کے بعد گورنر سندھ عشرت العباد، وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ ساتھ ڈی جی رینجر ،ڈی جی آئی ایس آئی، اور ڈی جی آئی بی سے سکیورٹی حوالے سے تبدلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر سیاسی قیادتوںسے بھی سکیورٹی حوالے سے ملاقات کی گئیں۔ جس میں اے این پی نے کراچی کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی سفارش کی تو ایم کیو ایم نے فوجی آپریشن پر اسرار کیا۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

نواز شریف صاحب نے سب کا موقف سننے کے بعد روایتی طور پر وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد ٹارگٹڈ آپریشن کا حکم دیا جس کی قیادت رینجر کے حوا لے کی گئی اور ساتھ پولیس کی معاونت بھی شامل کی گئی۔ جس پر ڈی جی رینجر نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے دو شرائط رکھیں (1) سیاسی جماعتوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو اور نہ ہی اپنے کارکنوں کی ناجائز گرفتاری کا رونا روئیں گئیں(2)گرفتار افراد کی پراسیکیوشن کا کام بھی رینجر کرے گی۔

شرائط کی منظوری کے بعد آپریشن جاری ہے لیکن اس آپریشن میں حکومت کی نا اہلی کی جو جھلکیں نظر آ رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ اگر حکومت کراچی کے امن کے لیے سنجیدہ تھی اور آپریشن کرنا ضروری تھا تو اس کاروائی کا پروگرام خفیہ رکھا جانا چاہیے تھا نہ کہ اتنا وویلہ مچایا جاتا لیکن چودھری نثار زبان کے پکے نکلے کہ عوام سے کچھ نہیں چھپا جائے گا تو اس لیے انہوں نے ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں آپریشن شروع ہونے سے پہلے عوام کو باخبر کر دیا۔

تمام منصوبے جیسے آن ائیر تشکیل دئیے جا رہے ہیں تو جس سے یہ آپریشن ناکامی کی نظر ہو گیا ہے۔ مگر کیسے؟۔ اب آپ خود بتائیں اس آپریشن سے کامیابی کیا خاک ملے گی جس کی پہلے ہی اطلاع کر دی حکومت کا کیا خیال تھا کہ جرائم پیشہ افراد کو آپریشن کی خبر ملے گی تو وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے علاقوں سے نکل آئیں گے یا جب ٹارگٹڈ آپریشن کا وویلہ مچ رہا تھا تو وہ بہرے ہو کر بیٹھے رہیں گے یا وہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں تو بند نہیں کرلیں گے اور نہتے ہو کر بیٹھے رہیں گے یا رینجرز کا استقبال کریں گے اور پھولوں کے ہار ڈالیں گے۔ ظاہر سی بات ہے وہ فوری طور دوسرے علاقوں میں روپوش ہو جائیں گے یا ملک سے باہر چلے جائیں گے۔

ہاں اب بھی چند جرائم پیشہ عناصر دیدہ دلیری سے جرائم کر رہے ہیںوہ پکڑے جاسکتے ہیں لیکن کیا ہے نہ کہ چور کو نہیں چور کی ماں کو پکڑوں تو جناب اب چوروں مائوں یا ماسٹروں کو تو پہلے ہی چوکنہ کردیا گیا تھا اور ان کے لیے فرار ہونے کا موقعہ دیا گیا ہے جو اب یقینی طور پر روپوش ہو چکے ہیں جیسے ہی آپریشن کا ڈرامہ ختم ہو گا تو پھر گینگ کی قیادتیں سنبھال لیں گیں۔ یہ تو اب حکومت صرف خانہ پوری کر رہی ہے جسے عام الفاظ میںہم ڈرامے بازی بول لیتے ہیں۔ عوام کو حکومت ڈرامہ کر کے دیکھا رہی اور ظاہر کر رہی ہے کہ حکومت کراچی کہ مسئلہ پر سنجیدہ ہے لیکن یہ حکومت کے پالیسی سازوں کی نااہلی اور سنجیدہ نہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

میرے خیال میں حکومت اپنے اس نااہل اقدام پر ضرور شرمندہ ہو گی۔ حکومت سے میں اپیل کرتا ہوں کہ جلد از جلد اس ڈرامے کو ختم کر دیا جائے اس کا کوئی فائدہ نہیں یہ آپریشن سو فیصد ناکام ہو چکا ہے۔ اس سے کوئی بڑی کامیابی نہیں ملنے والی آپ جب بھی آپریشن ختم کرتے ہو اور حالات نارمل دیکھ کر وہ پھر دندناتے آجائیں گے۔ اگر ایسی کوئی کاروائی مقصود ہو تو اُس کو خفیہ رکھنا چاہیے نہ کہ پیشگی اطلاع دی جائے۔

KHAN FAHAD KHAN

KHAN FAHAD KHAN

تحریر : خان فہد خان