مسلم لیگ ن کی حکومت پر جب مشرف نے شب خون مارا اس دن سے ن لیگ بکھرنا شروع ہو گئی۔ قیادت کا ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ن لیگ کے پنچھی ق لیگ کی چھتری پر بیٹھنے لگے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور ن لیگ کی قیادت جلا وطنی کاٹ کر دوبارہ پاکستان میں آئی۔ بکھری ہوئی ن لیگ آہستہ آہستہ سمٹنا شروع ہوگئی۔ 2008 کا الیکشن ہوا تو پیپلز پارٹی کے بعد ن لیگ دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس کے ساتھ ہی ق لیگ پر زوال آنا شروع ہوگیا۔
آہستہ آہستہ ن لیگ سے اڑنے والی پنچھی واپس آنا شروع ہوگئے۔ ان کے آنے سے ن لیگ مضبوط تو ضرور ہوئی مگر اس پر لوٹے جمع کرنے کا الزام لگنا شروع ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جب ن لیگ سے گئے ق لیگ یاکسی دوسری جماعتوں نے ان لوٹوں کو کیوں لیا اور اس وقت ان لوٹوں کو جمع کرنے کا شور دوسری جماعتوں پر کیوں نہیں لگا؟ اب جب وہ واپس اپنی جماعت میں آ رہے ہیں تو پھر اعتراض کس بات کا؟ ہر جماعت میں سیاستدانوں کے اپنے ذاتی اختلافات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعض سیاستدان اپنی بنیادی پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کونسی جماعت ہے جس کے ممبرز اس پارٹی کو چھوڑ کر نہیں گئے یا اس پارٹی میں کسی دوسری پارٹی کے ممبر شامل نہیں ہوئے۔
جمشید دستی، سردار آصف احمد علی، خورشید قصوری اور شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو کیا وہ لوٹے نہیں بنے اور اگر وہ لوٹے بنے تو تحریک انصاف نے ان کو اپنی پارٹی میں کیوں شامل کیا۔ن لیگ سے جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی جوائن کی تو وہ کیا ہیں؟ نبیل گبول ایم کیوایم میں گئے تو وہ کس کیٹاگری میں ہوئے؟اگر سوچا جائے تو تحریک انصاف جو نوجوانوں کی سب سے پسندیدہ جماعت تھی اس کی مین قیادت لوٹو ں پر مشتمل ہے۔ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پی پی اور صدرجاوید ہاشمی ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف کے مین (Main) عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اگر یونین کونسل کی سطح یا پھر سٹی کی سطح پر دیکھا جائے تو لوکل سیاست میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کبھی کسی گروپ میں تو کبھی کسی میں۔
2013 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن ملک کی سب بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ جس نے مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت قائم کی۔ اقتدار میں آنے کے بعد کچھ لوگ اپنی پارٹی سے بڑے بڑے عہدوں کی توقع کیے ہوئے تھے مگر جب ایسا ممکن نہ ہو سکا یا اس کو وہ عہدہ نہ ملا جس کی وہ امید لگائے ہوئے تھا تو وہ پارٹی چھوڑ جاتا ہے۔ پنجاب میں تو ن لیگ کی اکثر حکومت بنتی رہی ہے اور اگریہ کہا جائے کہ ن لیگ پنجاب کی سب بڑی جماعت ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہوگا کیونکہ جتنی پوزیشن پنجاب میں مضبوط ہے اتنی کسی دوسرے صوبے میں نہیں۔
صوبہ سندھ میں اگر ن لیگ کو کسی نے زندہ رکھا تو وہ نام سید غوث علی شاہ کا ہے۔ جس وقت میاں برادران جلاوطن تھے اس وقت سید غوث علی شاہ بھی ان کے ہمرا ہ جلا وطن تھے۔ جس کی وجہ سے اس دوران سندھ میں ن لیگ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ آج کے صدر ممنون حسین پاکستان میں ہونے کے باوجود ن لیگ کو فعال نہ کرسکے۔ جیسے ہی غوث علی شاہ واپس آئے صوبہ سندھ میں ن لیگ میں جان پڑتی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنتا گیا۔سندھ سے نامور نام ن لیگ میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ سب سے بڑی کامیابی تون لیگ کو جب ملی جب ممتاز بھٹو کی سندھ نیشنل فرنٹ ن لیگ میں ضم ہوگئی۔
مئی کے الیکشن میں ن لیگ سندھ میں خاطر خواہ کامیابی تو حاصل نہ کرسکی مگر اپنا نام ضرور بنانے میں کامیاب ہوئی۔ الیکشن کے بعد لوگ سندھ میں تبدیلی دیکھنے کے خواہش مندتھے اور بہت سے ن لیگ کے لوگوں کو امید تھی کہ ان کی حکومت بننے کے بعد سندھ میں ان کو کوئی مقام ملے گا مگر سب کچھ بے سود ثابت ہوا۔ ممتاز بھٹو کا گورنر سندھ اور سید غوث علی شاہ کا بطور صدر پاکستان نام آرہا تھا مگر یکدم یہ سب نام پیچھے چلے گئے۔ صدر پاکستان سندھ سے ضرور بنایا گیا اور بنایا بھی سید فیملی گیا مگر سید غوث شاہ کی بجائے سید ممنون حسین کو صدر پاکستان کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے ووٹ ن لیگ کو ملنے کی وجہ سے فی الحال گورنر سندھ کا بھی معاملہ دفن ہو چکا ہے۔
Election
اس کے بعد سے سندھ میں ن لیگ میں کافی انتشار پایا جاتا ہے۔ ممتاز بھٹو بھی ن لیگ سے ناراض نظر آتے ہیں۔ ممتاز بھٹو کے خاص دوستوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سندھ نیشنل فرنٹ کو دوبارہ فعال کیا جائے۔ ممتاز بھٹو ابھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ غوث علی شاہ بھی اپنی حکومت سے مایوس اور اپنی قربانیوں کو رائیگاں جاتے ہوئے دیکھ کر ن لیگ سندھ کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بے شک انہوں کا کہنا ہے کہ دھاندلی کی شکایت پر پارٹی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ سید غوث علی شاہ ہی نہیں ان کے ساتھ سندھ کے کئی لیگیوں نے بھی استعفیٰ دیے ہیں۔بے شک ابھی تک ان کے استعفے قبول نہیں کیے گئے مگر ان سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ ن لیگ انتشار کا شکار ہے۔
اگر میاں نواز شریف اقتدار کی خاطر یا کمزور اپوزیشن کے چکر میں اپنے سابقہ دوستوں کو اور اتحادیوں کو فراموش کرگئے تو یہ ن لیگ کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ میاں برادران کو زرداری والی پالیسی ترک کرکے ن لیگ کی اپنی پالیسی اپنانا ہونگی۔ الیکشن مہم میں عوام سے جو وعدے کیے وہ پورا کرنا ہونگے۔ ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا نہ کہ خزانہ بھرنے کے لیے عوام پرٹیکس پہ ٹیکس لگا کر عوام کو اپنے ہی خلاف کھڑا کر لیں جس سے اپوزیشن کو فائدہ اور حکومت کو نقصان ہو۔ ناراض دوستوں اور ان لوگوں کو جنہوں نے برے وقت میں ن لیگ کا ساتھ دیا ان کی قربانیوں کو فراموش کرنے کی بجائے ان کو ملک کی خدمت کرنے کا موقع دیں۔
موقع پرست اور مفاد پرست لوگوں سے اپنے آپ کو بچائیں ورنہ کہیں پھر ایسا نہ ہو کہ جیسے پہلے ن لیگ کی حکومتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے میاں برادران سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں اور غلط فیصلوں سے کہیں اپنے لیے پھر کوئی مشکلات کھڑی کرلیں۔ (بشکریہ پی ایل آئی)