جناب محترم وزیر اعظم صاحب خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں آپ ان کو اسمبلی کی گھنٹیاں نہ سمجھیں جہاں کسی کو اس کی پراہ نہیں ہوتی یہ حقیقت میں خطرے کی گھنٹیاں ہے اور اب سونے کی بات نہیں اور نہ ہی لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں نہیں آتی آپ اور آپ کے رفقاء جس مقصد کے لیے اقتدار میں آئے ہیں وہ پورا کیجیے ورنہ اب کی بار آپ کو سعودی عرب جانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا۔
عوام کو مفاہمت کی میٹھی گولیاں دینے کا وقت اب گذر چکا ہے کیونکہ ایک طرف غربت اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے والدین اپنے بچوں کو مار رہے ہیں یا پھر مرنے کے لیے لاوارث چھوڑ رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے خاندان کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے نوجوان جرائم جیسے گھنائونے کاموں میں ملوث ہورہے ہیں اب تو سرکار کے ملازم بھی سرکار کے ہی ہو کررہ گئے ہیں۔
عوام اپنی مدد آپ کے تحت ہر جگہ حسب توفیق ذلیل وخوار ہورہے ہیں کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے لوٹ مار کا ایسا سلسلہ چل پڑا ہے کہ جو رکنے کا نام نہیں لے رہا بچوں کی بھوک اور انکی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں والدین کودنیا داری سے اتنی دور لے جاتی ہیں کہ پھر وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان تو پھر انسان ہے جسے اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ایک چڑیا بھی اپنے بچے کا دفاع کرنے کے لیے باز سے الجھ جاتی ہے اور مرغی خطرہ بھانپ کر بچوں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے تو پھر ایک انسان کیسے اپنے بچوں کو دکھ تکلیف، پریشانی اور بھوک میں دیکھ سکتا ہے آئے روز کے واقعات ہماری مردہ ضمیری کو جھنجوڑنے کے لیے بہت ہیں مگر ہم ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں یہ وہ لاوا ہے جو آہستہ آہستہ پک رہا ہے اور جب پھٹے گا تو پھر اقتدار پر نام نہاد عوام خدمت گاروں کو بھاگنے کا کوئی موقعہ نہیں ملے گا۔
ابھی کل ہی کہ بات ہے کہ شیخوپورہ میں ایک باپ دو بیٹیوں کو ریلوے لائن پر چھوڑ کر چلا گیا گیا جبکہ اسی روز کراچی میں نامعلوم شخص تین معصوم ننھی پریاں صائمہ، عتیقہ اور آمنہ جو سوائے اپنا نام بتانے کے اور کچھ نہیں جانتیں کو کھارادر پولیس سٹیشن میں چھوڑ گیا جسے پولیس نے ایدھی کے حوالے کر دیا۔
Poor People
والدین کا اپنے بچوں کو یوں بے یارو مددگار چھوڑ دینا یک دم نہیں ہو جاتا کہ انکے ذہن میں خیال آیا اور وہ بچوں کو اپنے آپ سے الگ کرنے پر رضامند ہوگئے نہیں ایسا بلکل نہیں ہے ایک انسان ایسا عمل کرنے سے قبل سو بار نہیں بلکہ ہزار بار سوچتا ہوگا اور جب اسکی ہمت، حوصلہ اور جرئات اسکا ساتھ چھوڑ دیتے ہونگے تو تب جاکر کہیں وہ ایسا کام کرنے پر مجبور ہوتا ہو گا اور ان سب چیزوں کی بنیاد مہنگائی، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ ہے جس نے غریب عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے، معاشی خوشحالی کا دعویٰ کرنے والے ابھی تک اپنی واضح سمت کا تعین نہ کر سکے اور ریلیف عوام سے کوسوں دور ہے، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل ،ایف بی آر اور دیگر سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن ملکی معیشت کو دن بدن کمزور کر رہی ہے۔
تین ماہ میں ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں 15 سے 35 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اب 11 مئی کے انتخابات کے بعد یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ صرف چہرے بدلے ہیں نظام میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی بے روزگاری اور کرپشن کا ناسور معاشرے کی جڑوں کو مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہے۔
ایک طرف روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ملکی معیشت کے لئے تباہی کا باعث بن رہی ہے تو دوسری طرف لوگوں کو اپنے جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے عوام پہلے ہی بدحال ہیں رہی سہی کسر موجودہ حکومت کے اقدامات نے نکال دی ہے یہی وجہ ہے کہ خودکشیوں کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور جب ایک عام انسان اپنے بچوں کو فروخت کرنے یا مار ڈالنے جیسی حرکت کرسکتا ہے تو پھر اس سے کسی بھی خطرے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران ایسی پالیسیاں مرتب کریں جس کا فائدہ عام لوگوں تک پہنچ سکے دکھاوے کے اقدامات سے گریز کیا جائے اور عملاً کام کرکے دکھایا جائے ورنہ وہ دن دور نظر نہیں آرہے جب حکمرانوں کو بھاگتے ہوئے سب دیکھیں گے مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی اور سب راستے بھی بند ہوچکے ہونگے۔
صرف ایک ہی گذارش ہے کہ کہ آپ اپنے بچوں میں قوم کے بچے دیکھیں اور انکے لیے بھی وہی سوچیں جو آپ اپنے بچوں کے لیے سوچتے ہیں اب بھی وقت ہے کہ سوتیلا پن چھوڑ کر ملک کے غریب انسانون کو اپنائیت کے حصار میں لے لیں اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دیں کل سے نہیں بلکہ آج سے تاکہ آپ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہیں۔