لاہور میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ نے میرے رگ و پے میں سراسیمگی پھیلا دی

لاہور : لاہور میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ نے میرے رگ و پے میں سراسیمگی پھیلا دی بہت دیر تک پریشان کن صورتحال سے دوچار رہنے کے بعد اب کچھ بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ ایک پانچ سال کی معصوم بچی جس کو ابھی تک پتہ بھی نہیں ہوگا کہ اسکے ساتھ کیا کر دیا گیا۔ اس بچی کے والدین کس کرب سے گزر رہے ہونگے یہ یا تو وہ بہتر جانتے ہیں جو اس صورتحال سے گزر رہے ہوتے ہیں یا انکا خدا۔ یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی کس حد تک ترجمانی کرتا ہے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور ہم اس بات پر پھولے نہیں سماتے کہ اللہ کی ساری نعمتیں صرف ہمارے ہی لیے ہیں۔

آج میں کھل کر لکھوں گا میری اس بات سے اب جس کو تکلیف پہنچے تو مجھے اس چیز سے کوی غرض نہیں ہوگی۔کیونکہ میں بھی اب اس معاشرے کا حصہ بننا چاہتا ہوں جہاں ہماری بے حسی، بے بسی، بے غیرتی اور بے شرمی کی کوی انتہا نہیں۔ ہمیں اس چیز پر کوی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ ہم اپنی بچیوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں مگر ہمیں اس چیز پر شرمندگی ضرور ہوتی ہے کہ وینا ملک کیا کر رہی ہے۔ دنیا میں سب سے گھناونا کام ایک باپ کا اپنی بیٹیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اس کے گاہکوں کے پاس پہنچانا ہوگا مگر ہم اس چیز کو شاید تسلیم بھی نہ کریں کہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر ہم پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی پر خوش ہوتے ہیں۔

ہم مذہب کے نام پر اپنی جان تک دینے کا دعوی کرتے ہیں مگر مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ ہم اپنی پسند کی چار شادیاں تک کرنے کو تیار ہوتے ہیں مگر اپنی بہنوں اور اپنی بیٹیوں سے انکی پسند پوچھنا بے غیرتی میں شمار کرتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ہم دین سیکھنے کے لیے جمع ہو سکتے ہیں مگر ہم اس چیز پر لڑ رہے ہوتے ہیں کی جنازے کے بعد آپ نے دعا کیوں کروای؟ ہمیں کم تولنے ، جھوٹ بولنے، ریا کاری، بجلی چوری، دھوکہ دہی پر تو کوی شرم محسوس نہیں ہوتی مگر کوی دوسرا اگر نماز نہ پڑھ رہا ہو تو اس بات پر ہم اسے کافر کہنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔

ہمیں ٹریفک سگنل توڑ کر بھاگنے میں تو شرم محسوس نہیں ہوتا مگر ہمیں ٹریفک وارڈن کی طرف سے چالان ہو جانے پر اپنی بے عزتی محسوس ہوتی ہے۔ ہم پولیس سے دنیا کی بد ترین گالیاں سن سکتے ہیں مگر کسی کی غلطی پر معذرت ہمیں قبول نہیں ہوتی۔ ہمیں انصاف کے لیے در در ٹھوکریں کھانا شاید اچھا لگتا ہے مگر انصاف کے حصول کے لیے اجتماعی کوشش کو ہم پاگل پن سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے ہی منتخب نماندوں کو کوستے ہیں مگر ووٹ ہمیشہ برادری ازم کی بنیاد پر دیتے ہیں۔

ہمارے علما بینکوں کے کاروبار کو تو حرام قرار دیتے ہیں مگر مضاربہ اور میزبان نامی کمپنیوں کا کاروبار کو حلال قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ سب وہ خود کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں شاید اس چیز پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جو بہت کم تعداد میں سینما کی تفریح سے لطف اندوز ہیں مگر ہمیں شاید اس بات پر کبھی افسوس بھی نہ ہو کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ پورن ساٹ } سرچ کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں اس وقت ملکی سلامتی اور نظریاتی جنگ کا سامنا ہے مگر ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں۔ ہمارے دشمن ہمیں اپنے قبضے میں لینے سے چند قدم دور ہیں مگر ہم اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ نماز میں آمین اونچی کہنی ہے یا آہستہ۔

مجھے اپنے مستقبل سے مایوسی نہیں کیونکہ مایوس وہ ہوتا ہے جسکا رب نہ ہو مگر میں اس بزرگ سے شرمندہ ضرورہوں جو 11 ستمبر کو قاد اعظم کی تصویر اٹھا کر سڑک پر بیٹھا ہوا تھا اور لوگ اسے پاگل کہ رہے تھے اسکے منہ سے نکلنے والے الفاظ میرے ذہن پر نقوش چھوڑ گے کہ جاز حکومت وہ ہوتی ہے جو عوام کی بہتری کے لیے کام کرے اور جو حکومت عوام کی بہتری کے لیے کام نہ کرے وہ جاز حکومت نہیں ہوتی۔ مجھے اپنی نوجوان نسل سے امید ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اپنی فضول رسموں سے بغاوت کریں گے اپنا ووٹ ذات برادری سے بالا تر ہو کر کاسٹ کریں گے ۔ دین کی تعلیمات پر خود غور کریں گے۔ اپنے آپ کو اعلی تعلیم سے روشناس کرایں گے ۔ اپنی بہنوں کو بھی جایداد میں بھی اپنا حصہ دار سمجھیں گے۔

مسالک میں بٹ کر اپنے طاقت کو ختم نہیں کریںگے ۔ بات ہمیشہ دلیل سے کریں گے۔ پسند نا پسند سے بالا تر ہو کر فیصلہ کریں گے۔ میرٹ پر یقین رکھیں گے۔ سفارش کلچر کو ختم کرنے میں کوی بھی قربانی دینا پڑی تو اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ نوجوانو اگر تم نے حقیقت میں ایک خود مختار اور مہذب قوموں میں اپنا نام لکھوانا ہے تو تمہارے پاس اب موقع ہے اور تم دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہو ورنہ صومالیہ، نایجیریا، ایتھوپیا وغیرہ کی مثال تمہارے سامنے ہیں۔ اب فیصلہ کی گڑھی ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے تو۔