کراچی …سِسکتی موت، مسکراتی اَجل

Karachi Ranger

Karachi Ranger

دو کروڑ آبادی پر مشتمل شہر کراچی کے مثبت پہلو تو بہت سے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی درد ناک المیے بھی اپنی جگہ ہیں، ملک کی معیشت کا گہوارہ، شہر قائد کے امن کو آخر کس کی نظر کھا گئی ہے، کراچی میں انسانی جسموں کی نشانہ کشی(ٹارگٹ کلنگ ) کے نتیجے میں بے جان ہو نے کا سلسلہ ہنو ز جاری… بھتا خوری انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی …نو گو ایریاز کی لکیریں کراچی کے نقشے پر اپنی جگہ پر قائم …لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا کی کاروائیاں عروج پر … نہ جانے یہ کون سا تمدن ہے، یہ کونسی تہذیب ہے جو کھلم کھلا قتل و غارت گری کا لائسنس عطا کرتی ہے ؟ آج اس شہر قائد میں انسانی لہو اپنا تقدس کھو چکا، ہر سو بہی میت رقص عریاں میں محو ہ۔

انسانی جان کی قدرو قیمت کا تصور قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے اور عزت و حرمت سے کھلواڑ سکہ رائج الوقت قرار پا رہا ہے۔ کراچی میں خون کا بازار گرم ہے اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس شہر کے معاملات کو بر سر اقتدار حکمرانوں نے کبھی اتنا سنجیدہ نہ لیا جتنا کہ اس کا حق تھا۔ ان دنوں کراچی میں آپریشن کی بازگشت زوروں پر ہے عوام امن کے متلاشی ہیں خواں یہ امن پولیس، رینجر یا فوج کسی کے ذریعے سے ہی ممکن کیوں نہ ہو، سپریم کورٹ بھی کراچی امن و مان کے حوالے سے کئی احکامات صادر فرما چکی ہے مگر مجال ہے جو کسی ایک حکم پر من و عن عمل کی زحمت بھی گوارہ کی گئی ہو۔

Quaid-E-Azam

Quaid-E-Azam

جب پولیس اور دیگر انتظامی اداروں میں سیاسی بھرتیاں اور وابستگیاں ہوں گی تو ان اداروں سے بہتر کارکردگی کی توقع کرنا دن میں چاند دیکھنے کے مترادف ہی لگتا ہے۔ شہر قائد میں قیام امن کے حوالے سے غیر معمولی اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے، محدود پیمانے پر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیاں تو کی جارہی ہیں مگر اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، بھتہ وصولی کا عفریت قابو آنے سے اب تک قاصر ہے۔ مجرموں کو سزائیں نہ ہونا یا اپنے اثر رسوخ اور پیسے کی بِنا پر چھوٹ جانا (یاضمانت پر آزادی حاصل کر لینا )اور سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد نہ ہونا بھی جرائم میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔

کراچی شہر میں ہر شخص ہی پریشان نظر آتا ہے وجہ یہ ہے کہ ہر شخص کو گھر سے نکلتے 80 فیصد یہی خدشہ ہوتا ہے کہ وہ وہ نہیں اب اس کی لاش واپس آئے گی اگر مردہ نہیں تو زندہ لاش واپس آئے گی کیونکہ کراچی کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسلحہ کے زور پر مال و زر سے محروم کر دیا گیا ہے۔ لاء اینڈ آرڈر قابو میں نہیں تو رینجرز، پولیس دیگر سیکیورٹی اداروں کے بجٹ پر سالانہ اربوں خرچ کرنے سے کیا حاصل ؟ کیا ان کا کام صرف اعلیٰ شخصیات کو پروٹول اور سیکیورٹی فراہم کرنا ہے تو پھر عوام تو اپنے آپ کو اللہ اور اس کے بعد دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیں۔ خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص اپنی جان و مال محفوظ نہیں سمجھتا، خدانخواستہ کب اور کہاں سے دہشت گردی کے خول سے نکلی کوئی اندھی گولی ہمیشہ کیلئے زندگی کے روشن چراغ گل کرنے کا سبب بن جائے۔ مارنے والا تو کسی کے حکم کا تابع ہے مرنے والے کو نہیں معلوم وہ کیوں ما را جارہا ہے۔

کیا قائداعظم کے اس ملک میں بسنے والے عوام کے نصیب میں بم دھماکوں، ڈرون اٹیک، ٹارگٹ کلنگ میں مرنا، کاروبار کی تباہی، لوڈ شیڈنگ کی تاریکیاں، مذہبی و لسانی منافرت، اشرافیہ کی لوٹ مار، بیرونی قرضوں کا بوجھ، ٹیکسوں کی بھر مار، مہنگائی اور بد امنی کا سیلاب، انسانی حقوق کی پامالی، سماجی و معاشی نا گفتہ حالات، قومی اداروں کی تباہی جیسے لا تعداد تحائف ہی ہیں ؟ کیا حکومت وقت کی کوئی ذمّہ داری نہیں بنتی۔

Salman Ahmed Shaikh

Salman Ahmed Shaikh

تحریر : سلمان احمد شیخ