پھونکوں والے پیر کامل ہو تو منزل مِل ہی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پیر صاحبان کے اندر اتنی پھونکیں آتی کہاں سے ہیں؟پیر صاحب گزشتہ پانچ سالوں سے ہر دِل عزیز سابقہ صدر جناب آصف علی زرداری سمیت اُن کی استعمال میں ہر ایک شے پر پھونکوں کی برسات کیے ہوئے تھے ۔پیر صاحب زرداری صاحب کے کمانڈانٹ ہیں ۔میرے خبر رساں کبوتر جو جگہ جگہ سے مجھے ایسے شفاف رُکے لا کر دیتے ہیں جو صرف میں ہی پڑھ سکتا ہوں مگر یہ رازِ نہاں میں کِسی کو نہیں بتانے والا کہ اِن رُکوں کو اگر موم بتی کی لُو کے قریب کیا جائے تو اِن پر لکھی خفیہ تحریریں اُبھر آتیں ہیں۔
میں نے خاص تربیت کے تحت اپنے پالتوں کبو تروں کو لیموں کے رس سے لکھنا سکھا رکھا ہے اور یہ ہُنر میں نے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہونے والی خفیہ خط و کتابت کے ذریعے سے سیکھا تھا۔ مجھے آج بھی وہ سہانی شام یاد ہے جب ایک سفیدقاصد کبوتر اپنے پنجوں میں ایک شفاف کاغذ لیے بد مست ایوانوں کی جانب اُڑا جا رہا تھا کہ مجھے سیاست کی مسحور کُن خوشبو سی محسوس ہونے لگی جورُکے سے بہہ بہہ کر ساری فضاء میں رَچ بس چکی تھی لہذا میں نے اپنی گوری چٹی خوبروں الڑ مٹیار حسینہ کبوتری کو پنجرے سے نکال کر صحن میں بٹھا دیا تو بچارا وفا دار کبوتر کششِ نسوانیت کا شکار ہو کر میرے آنگن میں لینڈ کر گیا۔
میں نے صنفِ نازک کے ذریعے سے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی اور کورا کاغذکبوتر اور کبوتری دونوں کی گُٹر گوں کے دوران ہوا کے ایک بے رحم جھونکے کی بدولت اُڑ کر ہیٹر کے عین سامنے چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طلسماتی طریقے سے دودھ کے دھلے ہوئے کاغذ پر تحریر اُبھر آئی اِس منظر نے مجھے اِس سحر کا گرویدہ بنا دیا۔ میںبونگا بھی کہاں کبوترروں کا قصہ لے نکلا بات تو صدر اور صدارت کی ہو رہی تھی ۔میرے حسین ترین (سیاست اور صحافت میں دلچسپی لینے والے) اینکر ٹائپ کبوتر نے میرے پہلوں میں ایک صاف اور شفاف چار تہہوں میں لپٹا ہوا چھوٹا سا رُکا پھینکا تو میرے کان جو پہلے سے ہی کھڑے ہیں مزید اکڑ سے گئے۔
اب میں نے کمرے کے عین وسط میں موم بتی روشن کر دی یہ موم بتی منتر پڑھتے ہوئے طواف کرنے اور سیاسی و غیر سیاسی روحوں کو بُلانے کیلئے روشن نہیں کی گئی تھی بلکہ لیموں کے رس سے لکھے ہوئے انتہائی خفیہ پیغام کو پڑھنے کیلئے جلائی گئی تھی۔ میرے موکل نے کہا ہے کہ یہ لیمو اور موم بتی والا راز میں کبھی کِسی کو نہ بتائو۔ پانچ پانچ منٹ کے وقفوں سے میرے سارے پیغام رساں کبوتر اپنا اپنا لیٹر پوسٹ کر کے پڑوسیوں کی مرغیوں کا دانہ چغنے جا چکے تھے۔
Pigeons
(سُرخ عینک لگا کر دیکھا جائے تویہ پیغام رساں کبوتر ہر سیاسی دربار کے گرد طواف کرتے نظر آئیں گے اور یہ گائے، بکری بھینس، بکرا، چوکیدار، بھیک منگا، ڈرائیور، باورچی، کاتب،ٹائپسٹ،دھوبی، نائی، گیٹ کیپر، مالی،کلرک کے بھیس میں بھی ہوسکتے ہیں یہاں تک کہ آپ کی برابر والی کرسی پر بیٹھا ایک معتبر شخص بھی اعلیٰ درجے کا وفادار کبوتر ہو سکتا ہے )اب میں نے تمام پیغامات کو ایک ترتیب سے رکھ لیالکھا تھا کہ !پیر اعجاز نے زرداری سے کہا ہے کہ چند ہی روز میں تم طبعت اور کچھ آب و ہوا کی تبدیلی کا بہانہ بنا کر ایک خاص مدت کیلئے دربدرَ
میرا مطلب ملک بدر ہوجانا اور اِس کام کیلئے کِسی اچھے سے سپیشلسٹ یا سرجن کی معاونت انتہائی اہم کردار ادا کرے گی اور اِس کام میں جلدی کرنا ہوگی کہی ایسا نہ ہو کہ عدالتوں کے دروازے کھٹکنا شروع ہو جائیں۔ دوسرے رُکے پر لکھا تھا کہ اچھا کیا تم نے میرے مشورے کے مطابق نواز حکومت کو انتہائی گرمی کے باوجود مکھن میں چوپڑ دیا اور کیا فنکار ہو یارمکھن کو پگھلنے بھی نہیں دیا، ویسے میں نے اپنے دو گنجے موکل اِن دونوں بھائیوں کے ہمراہ کر دیے ہیں جو ہمیں خفیہ پیغامات سے آشنا کرواتے رہیں گے۔
تیسرے رکے پر لکھا تھا کہ میں نے آپ کی کار پر لگے سبز پرچم سے کہا تھا کہ یہ آپ ہی کے صدر رہے ہیں پا کستان کے صدر رہے ہیں اگر انہوں نے بیرونِ ملک سے قرضہ بھی لیا ہے تو اِسی ملک کی خاطر اور اِسی ملک کا کھایا ہے اور اِسی کا پہنا ہے، اے وطنِ عزیز انہیں ہر قسم کے اسکینڈل سے بچا کر رکھنا، اے سبز حلالی پرچم آپ تو ہر راز سے آشنا ہیں اِن تمام رازوں کو پسِ پردہ ہی رکھنا میں نے تو بس سبز پرچم سے اتنی سی ہی عرض کی تھی یہ صحافی لوگوں نے نہ جانے کیوںانوکھی افواہ اُڑا دی کہ میں پرچم پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونک رہا ہوں۔
چوتھے رکے پر لکھا تھا کہ گاڑی پرایک خاص ورد کی پھونکیں اِس لیے مار رہا تھا کہ اِس ورد کی برکت سے گاڑی کو اصل مالک پہچاننے کے با وجود بھی کبھی واپس مانگنے کا مطالبہ ہر گز نہیں کریں گے، جیسے آپ کروڑوں کے سرکاری تحائف ایوانِ صدر سے بلاول ہائوس تک با سلامت لے گئے ہیں اِسی طرح سینکڑوں مزید گاڑیاں بھی میری کئی پھونکوں کی زد میں آچکی ہیں،آپ سمجھ رہے ہیں نہ۔آخری رُکے پر لکھا تھا کہ اگلے پانچ سال تک سیاست سے دور رہنے والی سیاسی بات بھی آپ نے خوب یاد رکھی اِس یاد دہانی پر میرا کاتب موکل جو آپ کے خطابات اور تقاریر لکھتا رہا ہے بے انتہا خوش ہےَ
مجھے خوشی ہے کہ آپ نے پورے پانچ سال موکلات کی ہر جائز و ناجائز بات پر آمین کہا اور اِسی بات سے خوش ہو کر موکلات کے سب سے بڑے سردار نے آپ کو کوقاف کے دورے کی دعوت دی ہے جہاں آپ کا مذید برین واش کیا جائے گا۔ یہ تو تھے وہ خفیہ رُکے جو صرف مجھے ہی نظر آتے ہیں اور صرف میں ہی پڑھ سکتا ہوں اور یہ رُکوں والا راز میں کبھی کِسی کو نہیں بتائوں گا اگر غلطی سے پیچھے کالم میں کہی ذکر کر دیا ہو تو لحاظہ اُسے نہ پڑھا جائے اور اگر پڑھ لیا ہے تو آپ کو پھونکوں کا واستہ اُسے نظر انداز کردیں عین نوازش ہو گی۔
Zardari
صدر زرداری صاحب اب سابقہ ہو چکے اور اپنے گھوڑوں ،اُونٹنی اور دیگر بے جان مگر قیمتی ترین ان گنت اشیاء کے ہمراہ صدارت کے عہدے سے دستبردار ہو کر با خیریت اپنے محل میں پہنچ چکے ہیں لہذا اب وہ سکون سے صدارت جیسے اہم منصب کے حقیقی مزے لوٹ سکیں گے اب انہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا (آپ کا کیا خیال ہے تحریر شدہ حکم نامے پر اتنی محنت مشقت سے دستخط کرنا کوئی آسان کام ہے) اب تو بس صرف وہ ہوں گےَ
اُن کی محنت پسینے کی کمائی کا بلاول محل ،ہزاروں فری کالیں، حکومتی تحائف وغیرہ اور بہت کچھ ،بجلی ،پانی ،گیس سب کچھ ہوگا مگر بِل بھول کر بھی سابقہ صدر صاحب کو اپنا دیدار نہیں کر وائیں گے۔صدرِ مملکت نے آخر ملک اور اُس کے خزانے کی خدمت کی ہوتی ہے اب اتنا ریلیف تو مِلنا ہی چاہیے ۔بات صدارت کی ہو رہی ہے تو مجھے یاد آیا کہ صدر زرداری صاحب جو گزشتہ دِنوں ایوانِ صدر سے باعزت اور بھر پور شا ن و شوکت سے رخصت ہوئے وہ پاکستان کے گیارویںصدر تھے اور اب سید ممنون حسین مملکتِ پاکستان کے بارویں صدر منتخب ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی صدارت کا یہ سفر 1965 میں جب آئین کے تحت پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دے کر گو رنر جرنل کا عہدہ ختم کیا گیا تو شروع ہوا اور یوں سب سے پہلے میجر جنرل اسکندر مرزا نے صدرِ پاکستان کا عہدہ سنبھالا پھر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل آغا محمد یحییٰ خان، ذولفقار علی بھٹو، فضل الٰہی چوہدری، جنرل محمد ضیاء الحق، غلام اسحٰق خانَ
فاروق احمد خان لغاری، محمد رفیق تارڑ، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف،آصف علی زرداری سے ہوتا ہوا اب یہ صدارت کا عہدہ پاکستان کے موجودہ بارویں بزرگ صدر جناب سید ممنون حسین تک پہنچ چکا ہے ۔میرے ایک اور قاصد کبوتر کے جادوئی رُکے کے مطابق سابقہ صدر رفیق تارڑ کی طرح موجودہ صدر ممنون حسین بھی میاں برادران کیلئے بے ضرر ثابت ہوں گے۔