گزشتہ روز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں امریکی عوام کے نام روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا خط ایک دانشمندانہ سفارتی کوشش ہے۔ تاہم اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ روس اور امریکہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے سوال پر متفق ہو جائیں اور مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا خطرہ ٹل سکے۔ اس بات کا انحصار جنیوا میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں سامنے آنے والے اتفاق رائے پر ہو گا۔
اگر دونوں ملک کسی ایسی قرارداد کے مسودے پر متفق ہو جاتے ہیں جس کے تحت سکیورٹی کونسل شام کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اپنے تمام کیمیائی ہتھیار عالمی برادری کی تحویل میں دے دے تو اس مسئلہ کا حل ممکن نظر آ رہا ہے۔ صدر باراک اوباما نے کانگریس میں شام پر حملہ کے حوالے سے قرارداد پر غور رکوا کر اس آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ پرامن حل میں بدستور دلچسپی رکھتا ہے۔
البتہ اس امریکی رویہ کو صدر باراک اوباما کی شکست یا امریکہ کی ناکامی قرار دینا بھی مناسب نہیں ہو گا۔ روس کے صدر پیوٹن نے چند روز قبل شام کے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی تحویل میں دینے کی جو تجویز پیش کی تھی اسے اب شام نے قبول کر لیا ہے۔ اسی تجویز کی وجہ سے امریکہ نے اب یہ تسلیم کیا ہے کہ اگر شام پرامن طریقے سے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو جلد از جلد بین الاقوامی نگرانی میں دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو امریکہ شام پر حملہ سے گریز کرے گا۔
صدر اوباما اس سے قبل کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کو امریکہ کی ریڈ لائن قرار دے چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے گزشتہ ہفتہ کے دوران متعدد بار یہ واضح کیا ہے کہ یہ ان کی یا امریکہ کی عزت کا سوال نہیں ہے۔ اقوام عالم اس بات پر متفق ہیں کہ انسانوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال ناقابل قبول فعل ہے۔ صدر باراک اوباما نے یہ انتہائی مؤقف بھی اختیار کیا تھا کہ اقوام متحدہ اس حوالے سے ایک جزو معطل بن چکا ہے۔ روس کی غیر ضروری حمایت کی وجہ سے شام کی حکومت اپنے ہی عوام کے خلاف مظالم میں دلیر ہو چکی ہے۔ اس لئے امریکہ یک طرفہ طور پر انسانیت کے تحفظ کے لئے شام کو سزا دینے کے لئے تیار ہے۔
صدر ولادیمیر پیوٹن کے خط میں امریکی صدر کے اسی مؤقف کو دلائل سے مسترد کیا گیا ہے۔ انہوں نے قرار دیا ہے کہ اقوام متحدہ، دونوں ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے تجربہ کے بعد مل کر قائم کی تھی۔ اسے غیر مؤثر اور ناکارہ بنا کر اقوام عالم کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تو یہ بات ثابت نہیں ہے کہ جس زہریلی گیس سے دمشق کے نواحی قصبہ غوطہ میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں اسے شام ہی کی فوج نے استعمال کیا ہے۔ بلکہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ باغی گروہوں نے اپنے طاقتور عالمی دوستوں کی مدد اور مداخلت حاصل کرنے کے لئے یہ اقدام خود کیا ہو۔
Russia
تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ روس بھی اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا کہ 21 اگست کو غوطہ کی آبادی پر چھوڑی جانے والی زہریلی گیس باغی گروہوں نے استعمال کی تھی۔ اس کے برعکس امریکہ یہ بات زور دے کر کہہ رہا ہے کہ یہ افسوسناک حملہ شامی فوج نے کیا تھا اور اس کے پاس اس کے ثبوت بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز نے اس علاقے میں جا کر متعدد ثبوت اکٹھے کئے ہیں لیکن ابھی ان کے نتائج اور ان عالمی ماہرین کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔
ماہرین یہ بات بھی بطور خاص کہہ رہے ہیں کہ شام کی فوج گزشتہ کچھ عرصہ سے دمشق کے نواح سے باغیوں کے اخراج کے لئے سرتوڑ کوششیں کرتی رہی ہے۔ اس لئے غوطہ پر حملہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ غوطہ کا علاقہ باغی فورسز کے قبضہ میں تھا اور وہاں کی آبادی ان کی ہمدرد تھی۔ اس لئے اس امکان کو مسترد کیا جاتا ہے کہ باغی فورسز خود اپنے ہی حامیوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کریں گی۔
اس بحث سے قطع نظر روس کی تجویز نے عالمی سفارتکاروں کے لئے ایک ایسا امکان پیدا کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک افسوسناک اور مہلک جنگ کو روکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم اس مقصد کے لئے فریقین کو پر خلوص طریقے سے کوشش کرنا ہو گی تا کہ کسی قابل قبول نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ جنیوا مذاکرات اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہیں۔ صدر پیوٹن کے خط میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ امریکی حملہ کی صورت میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہو گا اور دنیا کے متعدد ممالک انتہا پسندوں کی زد میں آ جائیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ شام میں لڑنے والے باغیوں میں متعدد انتہا پسند شامل ہیں۔ ان میں عرب بھی ہیں اور یورپی ممالک سے گئے ہوئے لوگ بھی۔ اس طرح یہ خانہ جنگی روس سمیت یورپ کے تمام ملکوں کے لئے خطرے کا سبب ہے۔ یہ جنگجو شام میں جو تربیت حاصل کریں گے اسے واپس آ کر اپنے ملکوں کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کر سکتے ہیں۔ روسی صدر کا یہ مؤقف بھی قابل غور ہے کہ شام میں نامعلوم انتہا پسند گروہوں کی کامیابی ایک طرف اسرائیل کے لئے خطرہ کا سبب بنے گی۔ دوسری طرف امریکی حملہ کی صورت میں ایران کے جوہری ہتھیاروں کا معاملہ اور اسرائیل فلسطین امن مذاکرات بھی اندیشوں اور خطرات کا شکار ہو جائیں گے۔
انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی یک طرفہ کارروائی سے دنیا کے چھوٹے ملکوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گا۔ کسی بڑی طاقت کے حملہ سے بچنے کے لئے بہت سے ممالک یہ کوشش کریں گے کہ وہ جوہری قوت حاصل کریں۔ اس طرح یہ ایک حملہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے کی جانے والی کوششوں کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ روس کے صدر کے بعض دلائل وزنی اور قابل غور ہیں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ روس اب شام کو بھی اس بات پر مجبور کرے کہ وہ وعدے کے مطابق اپنے کیمیائی ہتھیار عالمی کنٹرول میں دینے کے لئے اقدامات کرے۔
Bashar Al Assad
کل ہی شام کے صدر بشار الاسد نے روسی ٹیلی ویڑن پر ایک انٹرویو میں اس حوالے سے تفصیلی بات کی ہے۔ انہوں نے پہلی بار یہ تسلیم کیا ہے کہ شام کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ اس سے قبل وہ تسلسل سے اسے امریکہ اور مغربی ممالک کا پروپیگنڈا قرار دیتا رہا ہے۔ شام کے صدر نے اس انٹرویو میں کیمیائی ہتھیار عالمی کنٹرول میں دینے کے حوالے سے شرائط بھی عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اس کے بدلے میں امریکہ کو یہ وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ باغیوں کی امداد کرنا بند کر دے۔
شام اس وقت ایک انتہائی مشکل صورتحال کا شکار ہے۔ اس کے صدر اور حکمران ٹولے نے ملک کو ایک ایسی خانہ جنگی میں جھونک رکھا ہے جس میں ایک لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ 20 لاکھ دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت میں شام کے حکمران کو اپنے ملک کو جنگ سے بچانے کے لئے شکست اور فتح کی بحث کی بجائے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے جو روس کی بدولت اسے حاصل ہو رہا ہے۔
شام میں لڑنے والی فورسز کے نمائندوں اور عرب ممالک کے علاوہ ترکی نے بھی روس کی تجویز اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیشرفت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے کل استنبول میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صدر اسد محض اس معاملے کو طول دینے کے لئے روسی تجویز کا سہارا لے رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی کسی قابل قبول حل پر آمادہ نہیں ہونگے۔ بعض دوسرے ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ بشار الاسد اس معاملے کو زیادہ سے زیادہ طول دینگے تا کہ امریکی حملہ کی بات ٹل جائے۔
اس کے علاوہ اس اندیشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ شام کیمیائی ہتھیاروں کے بہت سے ذخائر کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرے اور محض ان کا کچھ حصہ ہی عالمی کنٹرول میں دینے پر آمادہ ہو گا۔ اس قسم کی کوئی کوشش بے یقینی پیدا کرے گی اور امریکی حملے کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔ اب یہ صدر پیوٹن اور روس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام کو جلد از جلد کسی قابل قبول معاہدے پر پہنچنے کے لئے آمادہ کرے۔ اس طرح دنیا ایک نئی جنگ اور ان خطرات سے بچ سکتی ہے جن کا اشارہ صدر پیوٹن نے اپنے خط میں دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر صدر بشار الاسد نے بھی عراق کے سابق حکمران صدام حسین کی طرح امریکہ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کی کوشش کی تو اس کا انجام بھی افسوسناک ہی ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ روس کی تجویز ایک مثبت پیش رفت ہے۔ لیکن اس پر جلد از جلد عمل کروانے کے لئے کھینچا تانی کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسے کامیابی اور ناکامی کے معیار سے ماپنا درست نہیں ہو گا۔ صدر پیوٹن نے امریکی عوام کے نام خط میں یہ الفاظ لکھے ہیں۔
انہیں اس عمل میں ماٹو کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ پیوٹن نے لکھا ہے۔ اگر ہم شام کے خلاف فوجی حملہ رکوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے بین الاقوامی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اس سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ یہ کامیابی ہماری مشترکہ جیت ہو گی۔ اس طرح دونوں ملک مشکل مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی مشترکہ اقدامات کر سکیں گے۔