آج کل جتنے بھی اخبارات ٹی وی چینلز اور ریڈیوز اسٹیشن کو سنیں ایک ہی خبر منہ پھاڑے آگے کھڑی نظر آتی ہے وہ ہے ایک پانچ سالہ بچی سنبل کے ساتھ زیادتی کی یہ خبر واقعی اتنی بڑی ہے کہ اس خبر سے تو ملک کی پالیسیاں تبدیل ہونی چاہییں اور اس کے اسباب کو جاننے کے لیے ہمارے حکومت سول سوسائٹی اور ملک کے بڑے بڑے اداروں کو بیٹھ کر اس حیوانیت کے اسباب کو جان کر اس کا سدباب کرنا چاہیے اور اس کا ایک دیرپا حل تلاش کرنا چاہیے جو ایسے کسی واقعہ کے رونما ہونے کے اسباب کو ختم کردے تاکہ ایسے واقعات رونما ہی نہ ہوں ایک مثال مشہور ہے (اگر کتوں کو ختم کرنا ہے تو کتیاوں کو مارو تاکہ وہ ایسے بچے جنم ہی نہ دیں) بالکل اسی طرح ان واقعات کے اسباب کو ختم کرو اور یہ ذمہ داری جہاں ہماری حکومت کی ہے۔
وہیں ہمارے معاشرے کی بھی ہے اور ہمارے سکول اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بھی ہے اور یہ ذمہ داری ملک کے صدر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ فوجی ادارے اور تمام چھوٹے بڑے اداروں کی ہے اور یہ ذمہ داری علماء کرام اور ہمارے میڈیا کی بھی ہے اور وہاں پر والدین دوست احباب اور رشتہ داروں کی اور ہمسائیوں کی بھی ہے میری ان باتوں کو شاید آپ لوگ ایک دیوانگی سمجھیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم سب کی نااہلی ہے جس پر جتنا رونا رویا جائے وہ کم ہے یہ بحیثیت مسلمان اور قوم ہماری ناکامی ہے ایک منٹ کے لیے سوچیں کیا ہم اپنی ذمہ داریا ں پوری کر رہے ہیں۔
جناب صدر پاکستان کے پاس جب کسی قاتل کی سزائے موت کی سمری جاتی ہے تو وہ اس قاتل کو بجائے سزا دینے کے اس کو معاف کر دیتے ہیں اور اس معافی کو دیکھ کر قاتلوں غنڈوں اور جنسی حیوانوں کی ہمت بڑھ جاتی ہے اور جب دل سے خوف نکل جائے تو انسان کو درندہ بننے میں کتنی دیر لگتی ہے اسی درندگی کو ختم کرنا یا اسی درندگی کو نہ جاگنے دینے کے لیے ہی تو یہ معاشرے یہ حکومتیں اور یہ عہدے معرض وجود میں آئے تاکہ اس درندگی کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو بروئے کار لایا جائے۔
Gang Arrested
یہی آفاقی پیغام بھی اگر آپ قرآن و احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو اس سے یہی تعلیمات ہی تو ملتی ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول میں رکھو جس نے اپنی ان خواہشات کو اپنے کنٹرول میں رکھا وہی متقین ٹھہرے مگر جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول نہیں کیا انہیں کے لیے ملکی قوانین بنائے گئے تاکہ ان کو ان قوانین کے تحت نفسانی خواہشات پر کنٹرول کرنے والا بنایا جائے مگر جو ہماری حکومتوں کی ذمہ داری تھی انہوں نے اس روگردانی کرتے ہوئے انہوں نے بجائے عوام کو ان جنسی حیوانات سے بچانے کے لیے کچھ کرنے کی بجائے ان کو اس چیز پر اکسانا شروع کردیا۔
اگر آپ غور کریں تو ان حکومتوں نے اس معاشرے کو سدھارنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب نکاح مشکل ہو جائے گا تو زنا عام ہو جائے گا تو کیا ہماری حکومتوں نے اس طرف کوئی توجہ دی ہے کیا انہوں نے نوجوانوں کے لیے کوئی ایسے مواقع پیدا کیے ہیں کہ جس سے اپنی تعلیم کے مطابق ملازمت حاصل کر کے اس نکاح کی طرف آئیں اور اس معاشرے میں سے برائیوں کا خاتمہ ہو نہیں حکومت نے ایسا نہیں کیا بلکہ الٹا انہوں نے ان کے لیے رزق کا حصول مشکل کر دیا ہے۔
کیا حکومتوں نے کوئی ایسے پراجیکٹ شروع کیے جس سے مزدور کو مزدوری مل سکے یا وہ مزدور اپنی اولاد کی صحیح پرورش کرسکے اور ان کی اچھی تربیت کر کے ان کی وقت پر شادی کر سکے کیا کسی حکومت نے ایسا کیا نہیں حکومت نے کچھ ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے ان سے ہر وہ جائز طریقہ عنقاء بنا دیا اور جب انہوں نے ایسا کیا تو لوگوں نے ناجائز طریقے ڈھونڈنے شروع کر دیے جس کی جہاں تسکیں ہوئی۔
اس نے وہیں پر اپنی تسکیں پوری کی اس کا نقصان یہ ہوا کہ نہ تو ہمارا معاشرہ ان کی ہوس سے بچ سکا اور نہ ہی گلی میں کھیلتے یا دکان سے چیز لیتے معصوم بچے جن کو ان ہوس کے ماروں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ؟ اور کیا ہماری سول سوسائیٹیوں نے کچھ ایسا کیا کہ جس سے برائیاں ختم ہو سکیں کیا انہوں نے اپنے اپنے معاشرے میں کچھ ایسا کام کیا جس سے اس معاشرے میں بیکار بیٹھے لوگوں کو کام مل سکے اور وہ بھی اس معاشرے میں باعزت شہری کی طرح زندگی گزار سکیں۔
اگر حکومت اور سول سوسائیٹیاں یہ کہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں تو پھر کیا دوسرے ممالک کی حکومتیں آ کر یہ کام کریں گی تو پھر آپ کی حکومتوں کا فائدہ کیا ہے اور ہمارا میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہا بلکہ اس نے جلتی پر پٹرول کا کردار ادا کیا ہے اور ہمارے ٹی وی چینلز پر ایسی بے ہودگی پھیلائی ہے کہ جس سے انسان کے جذبات بھڑکتے ہیں اس پر حیوانیت سوار ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس حوس کو مٹانے کے لیے کچھ بھی کر گزرتا ہے اور اس طرح کے واقعات ہمارے سامنے آئے روز ٹی وی چینلز پر آتے رہتے ہیں تو سوچیں یہ ہماری حکومت، سول سوسائٹی، معاشرہ قوم اور ہمارے اداروں کی اور ہماری تربیت کی نااہلی نہیں ہے۔
Islamic Society
یہ وہ پھل ملنا شروع ہوا ہے جس کا بیج ہماری گزشتہ حکومتوں نے بویا تھا کہ انہوں نے دوسرے معاشرے کی عادات و تقالید کو اپنے معاشرے میں لانے کی کوشش کی ہے میری گزارش ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے کو اسلامی معاشرہ ہی رہنے دین اور کوشش کریں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس کو اسلامی بنانے کی کوشش کریں اسلامی کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق ملے اگر یہ کر دیا تو اس ملک سے یہ حیوانیت والی تمام خرابیاں ختم ہو جائیں گی اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
تحریر : محمد اسلم رضا الازہری maralazhari@gmail.com