دو تین دِن قبل شام کے وقت میں نیٹ پر پربیٹھے کی بجائے چلتا چلتا اپنے مسکن کی ایک قریبی کنٹین پر جا بیٹھا وہاں سوائے کنٹین مالک کے میرا جاننے والا کوئی نہ تھا جس سے میں گپ شپ لگاتا جبکہ کنٹین مالک اپنے کام میں مصروف تھا لہذا میں نے اِس کے کام میں خلل ڈالنے کی بجائے اخبار کا مطالعہ بہتر سمجھا، مطالعہ کے دوران جب میں اخبار کے بیک پیج پر پہنچا تو وہاں ایک سنگل کالم خبر پر میری نظر ٹھہری جِس کی ہیڈنگ تھی کہ٫٫ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی نے اپنے والدین کے حق میں بیان دے دیئے، شوہر بے ہوش،،یہ خبر مُجھے عجیب سی لگی اِس لئے میں اِس کی تفصیل میں چلا گیا۔
جِس سے معلوم ہوا کہ لاہور کی رہائشی (ص ب ا)نے کُچھ عرصہ قبل خُرم نامی لڑکے کی محبت میں گھر سے بھاگ کر اُس سے لو میرج کر لی تھی جِس پر لڑکی کے اہل خانہ نے لڑکے یعنی کہ اپنے داماد کے خلاف اُن کی بیٹی کو اغوا کر لے جانے کا تھانہ شاد مان میں مقدمہ درج کروا رکھا تھا اور گُزشتہ روزلاہور ہائی کورٹ میں اِس کیس کی سماعت کے دوران لڑکی نے کُچھ دیر اپنے والدین کے ساتھ گُزارنے کے بعد واپس کمرا عدالت میں آکر اپنے والدین کے حق میں بیان دے دیئے جِسے سُنتے ہی خُرم بے ہوش ہو کرگِر پڑا، جِس کے بعد میں وہاں سے اُٹھا اور اپنے مسکن لوٹ آیا اور رات گئے۔
تک سوچتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ اِس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اور اِس کے کِس فریق پر کیا نتائج اثر انداز ہونگے؟ کافی سوچ بچار کے بعد آخر اِن تین سوالات میں سے پہلے کا جواب یہ مِلا کہ والدین نے اپنی بیٹی کے جذبات و احساسات کا خیال نہ رکھتے ہوئے اِس پر اپنے قوائد و ضوابط لاگو کرنے کی کوشش کی جِس نے اِسے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے پر مجبور کر دیا اور جب اِس نے اپنی مرضی سے شادی کر لی تو تب اُنہیں خیال آیا کہ برادری میں ہماری تو ناک کٹ گئی اِسکے بِنا ہم تو سانس ہی نہیں لے سکتے لہذا ناک دوبارہ جوڑنے کیلئے یعنی کہ اپنی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ پانے کیلئے زِندہ یا مُردہ ہر حال میں بیٹی کی واپسی ضروری سمجھتے ہوئے اُنہو ں نے اپنے داماد پر اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران اپنی جیت کی خاطر اُنہوں نے اپنی بیٹی کو وہ محبت اور شفقت دی جو اُسے بچپن میں بھی نہ مَلی ہواور ساتھ ہی اُسے ایسے ایسے سبز باغ بھی دکھائے جو اُس نے کبھی نہ دیکھے تھے اگر کِسی نے دکھائے بھی ہونگے تو وہ اُن کے شوہر کے علاوہ کوئی اور نہ ہو گا اور شوہر صاحب کے اپنے ماں باپ و دیگر عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اِس لڑکی کو اپنانے کے بعد اچانک ایک جھوٹا مقدمہ گلے پڑ جانے کے سبب مالی حالات تھوڑے خراب ہو تے ہوئے دیکھ کر جب اُسے وہ سپنے پُورے ہوتے ہوئے دکھائی نہ دیئے تو یہ شوہر کی چاہت و ایثار کو بھول کر اپنے والدین کے حق میں ہو گئی۔
شوہر بے چارہ اِس لئے بے ہوش ہوا کہ جو سلوک اِس کی بیوی نے اِس کے ساتھ کمرا عدالت میں کیا اِس کا اُس نے کبھی سپنے میں نہیں سوچا تھا یعنی کہ نتائج جب یقین کے بالکل بر عکس برآمد ہوئے تو اُس کے جذبات کو اِس قدر ضرب لگی کووہ خود کو سنبھال نہ سکا لیکن یہ اُس کی ہمت تھی کہ معاملہ بے ہوشی کی حد تک ہی محدود رہا ورنہ ایسی ضربات تو جان لے لیا کرتی ہیں، اب بات کرتے ہیں ذمہ داری اورمُستقبل میں اِن پرپڑنے والے اثرات کی کہ جب یہ معاملہ یا سکینڈل صِرف برادری کی حد تک ہی محدود تھا تب تو والدین نے اپنی ناک کٹ جانا محسوس کیا مگر اب جب میڈیا کے ذریعے یہ سکینڈل 18 کروڑ لوگو ں تک پہنچ گیا ہے۔
Muslim Women
ہر دوسری نوجوان محفل میں اِس پر تبصرے ہونے لگے تو تب ناک لگ گئی ؟اپنی بیٹی کو جوگھر لے گئے کیا اب وہ اُسے ایسے ہی گھر بٹھائے رکھیں گے اگر نہیں تو وہ ایسا داماد کہاں سے ڈھونڈیں گے جو اُس کو اُسکے گُزشتہ معاشقے کے طعنے نہ دیگا بیٹی نے تو والدین کے جذبات کی قدر کر لی مگر والدین آخر کب تک اُس کا ساتھ دیگا اور جو سپنے اُسے کمرا عدالت میں دکھائے گئے وہ کہاں سے اور کیسے پورے کریں گے، لہذا مختصر یہ کہ اُس نے نئے سپنے دیکھتے ہوئے اپنے شوہر کے جذبات سے کھیل کر اپنی زِندگی اِسی ہی دُنیا میں جہنم بنا لی جِس کی جتنی ذمہ داروہ خود ہیں اُتنے ہی اُس کے والدین بھی ہیں،کیونکہ اگر یہ والدین اپنے فرسودہ قوائد وضوابط بیٹی پر لاگو کرنے کی بجائے اُس کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہوئے یہی شادی اپنی رضا مندی سے کر دیتے تو اُنہیںکبھی یہ دِن نہ دیکھنا پڑتا۔
بلکہ بیٹی اور داماد اِن کے احسان مند رہتے ہوئے زِندگی بھر جہاں اِن کی خدمت کرتے اِن کے بُڑھاپے کا سہارا بنتے وہاں ایک دوسرا خاندان بھی اِن کے ساتھ مِل جاتا اور وہ زیادہ مضبوط ہوجاتے، خیر یہ سب سوچتے سوچتے اور لکھتے لکھتے میری آنکھ لگ گئی اور جب سحر ہوئی تو موبائل پر ایک کال آنے کی بل سُن کر میری آنکھ کھُل گئی دیکھا تو آج سے تقریباًپانچ سال پُرانے میرے ایک مخبر دوست و قاری کا نمبر تھا میں نے آنکھیں ملتے ملتے یہ فون سُنا تو معلوم ہوا کہ تھانہ فرید نگر کے علاقہ رحمان ٹائون میں پیسے نہ ملنے پر اکلوتے بیٹے نے والدہ قتل کر دی یہ خبر بریک کرتے ہی جب میں منہ ہاتھ دھونے لگا تو آج سے تقریباً چار سال پہلے کا ایک ایساواقعہ میری آنکھوںکے سامنے گردش کرنے لگا۔
جِس میں محبوبہ کی فرمائش پر ایک سفاک باپ نے اپنے دو کمسن لختِ جگر ذبع کر دیئے تھے اور پولیس حراست میں دوران انویسٹی گیشن اپنی محبوبہ کایہ بیان کہ اِس کے ساتھ میرا معاشقا ضرور رہا ہے مگر اب مُجھے اِس معمولی ڈرائیور سے زیادہ آمد ن والا ایک لڑکا میسر ہے اِس لئے میں نے اِس سے کہا کہ ہمارے ایک دوسرے کو پانے کے راستے میں تمھارے بچے رُکاوٹ بن رہے ہیں پہلے اِنہیں راستے سے ہٹائو پھِر میں آپ سے شادی کروں گی کیونکہ کوئی بھی باپ ایسا نہیں کر سکتا اِس لئے اِس سے میں نے یہ بات کہی کہ یہ بھی ایسا نہ کر سکنے پر میرا پیچھا چھوڑ دیگا مگر اِس نے تو یہ کام بھی کر ڈالاجِس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے بچوں کا نہ ہو سکاوہ میرا کیسے ہو سکتا ہے آج اِس نے میرے لئے اپنے بچے قتل کئے ہیں اور کل کِسی اور کیلئے مُجھے قتل کر ڈالے گا لہذا میں اِس سے پہلے بھی نفرت کرتی تھی اور اب اُس سے بھی زیادہ نفرت کرتی ہوں ،یہ سُنتے ہی وہ قاتل پاگل ہو گیا تھا۔
Women
اِتنے میں میں منہ ہاتھ دھو کے فارغ ہو گیا اور اِس سویر رونما ہونے والے تازہ تیرین واقع کی تفصیل جاننے کیلئے میں نے اپنے اِس مخبر دوست و قاری کو فون کیا تو واقع کی تفصیل یہ مِلی کہ یہ درِندہ صِفت قاتل اپنے والدین کا اِکلوتا بیٹا اور دو بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے جِس کا اپنے ہی شہر کی رہائشی(ش) سے معاشقا چل رہا تھا اور اِس عورت سے باز نہ آنے پر اِس کے والد نے اِسے گھر سے بھی نِکال دیا تھا اب اُسے گھر واپس آئے کو ابھی کُچھ ہی دِن ہوئے تھے کہ اِس کی محبوبہ نے اِس سے ایک نیا موبائل فون خرید دینے کی فرمائش کر دی جِسے پُورا کرنے کیلئے اِس نے اپنی والدہ سے پانچ ہزار روپے مانگے جو والدہ کے نہ دینے پر اِس نے فائرنگ کر کے ایک ایسی حستی کو جِس کے قدموں تلے اِس کی جنت تھی خاک میں مِلا دیا۔
اپنے مخبر کی یہ بات سُن مُجھے حضرت صلاح الدین کا یہ قول یاد آگیا کہ جِس قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو اُس کے نوجوان طبقے میں فحاشی پھیلا دواور ساتھ ہی یہ شعر بھی میری زُباں پہ آگیا کہ (عورت بنائی خُدا اور پیسہ بنا مذہب علاوہ اِسکے نہیں اور کوئی شکست کا سبب) یعنی کہ آج کل لوگوں کی نظر میں اپنے خُدا سمیت کِسی بھی رشتہ یا چیز کی اُتنی اہمیت نہیں جتنی عورت کی ہے جیسا کہ متذکرہ بالا تینوں واقعات میںعورت برابر کی شریک ِ جُرم ٹھہری مگر قانون کی نظر میں بے قصور اور معصوم ہے اور پیسے کو اِس لئے مذہب سمجھا جانے لگا ہے۔
مردوں کے ہاں جب تک جِتنا زیادہ پیسہ ہے عورت کے ہاںوہ اُس وقت تک اُنتا ہی زیادہ مقبول ہے اورپیسے کی کمی ہونے پر یا اُن سے زیادہ مالدار مِلتے ہی عورت کے ہاں اُن کی مقبولیت بھی کم ہو گئی۔ جِس کے زِندہ ثبوت و دلائل متذکرہ بالا تین کیسز اور ہماری حکومتوں کا امریکی ڈالرز کیلئے عورت کو اِتنے وسیع ترین حقوق سے نوازنا ہے کہ اُنہیں کوئی پوچھ گِچھ ہی نہ کرسکے چاہے وہ کِسی کے جذبات کا قتل کرے، چاہے کِسی کو چوری پر مجبُور کرے، چاہے کِسی کو ڈکیتی پر مجبُور کرے، چاہے کِسی کی ماں قتل کروائے ، چاہے کِسی کے بچے قتل کروائے ،اور چاہے تو کِسی کا اپنا قتل کردے وغیرہ وغیرہ ہمارا اور ہمارے حاکم حضرات کا مذہب امریکی ڈالر ہونے کا چوتھا ثبوت ہے۔
اب آنے والے کُچھ ہی دِنوں میں عورتوں کے حقوق کا ایک اور بِل پاس ہونا متوقع ہے، جِس کی سب سے بڑی وجہ ہماری دین سے دوری ہے ،اگر ہم خود سیدھے راستے پر آجائیں تو سب کُچھ خود بخود ہی ٹھیک ہوجائے قارئین کرام آج نہت کُچھ لَکھنے کو دِل چاہ رہا تھا مگر تحریر پہلے کافی لمبی ہو چکی لہذاآج کیلئے اِتنا ہی مذید اگلے کالم میں،آپ ای میل کے علاوہ شام 6 کے بعد میرے موبائل نمبر03143663818پر بھی مُجھ رابطہ کر سکتے ہیں۔
Mohammad Amjad Khan
تحریر: محمد امجد خان
Email:Pardahchaak@gmail.com Mob No For Reedars:03143663818