پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے ملک میں خواتین کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں کمیشن نے خواتین پر جنسی حملوں کے علاوہ ان کے خلاف سماجی سطح پر پائے جانے والے تعصبات کو انتہائی شرمناک اور افسوسناک رویہ قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے حکام پر زور دیا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے مؤثر قانونی کارروائی کرنے کے ساتھ اس حوالے سے عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
کمیشن نے اس بات پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جرائم کا نشانہ بننے والی خواتین اور ان کے اہل خاندان کو نہ تو مروجہ قوانین کے تحت انصاف ملتا ہے اور نہ ہی متاثرین اور ان کے اہل خاندان کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انصاف کا تقاضہ کرنے والی خواتین اور ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ان سماج دشمن عناصر کی منہ زوری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب یہ لوگ خواتین کی مدد کرنے یا ان کا معاملہ سامنے لانے والے اداروں کو بھی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔
اس بیان میں کمیشن نے اپنے ایک ایسے اہلکار کا قصہ بھی بیان کیا ہے جس نے ایک خاتون کا معاملہ رپورٹ کیا تھا۔ اس خاتون کو گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یہ رپورٹ سامنے آنے پر متعلقہ لوگوں نے اس اہلکار کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسے اس قدر ہراساں کیا گیا کہ اسے اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنا پڑی۔کمیشن کے اس بیان میں خاص طور سے گزشتہ چند روز کے اندر لڑکیوں اور کمسن بچیوں کو جنسی تشدد کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ سارے واقعات بڑے شہروں سے رپورٹ کئے گئے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنس مخالف کے خلاف جنسی جرائم صرف دیہی علاقوں یا دور دراز قصبوں تک محدود نہیں رہے ہیں۔ اس حوالہ سے لاہور کی ایک 5 سالہ بچی کا معاملہ گزشتہ چند روز سے پاکستانی میڈیا میں خاص طور سے سامنے آیا ہے۔ مجرموں نے اس بچی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد اسپتال کے باہر پھینک دیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن نے بتایا ہے کہ صرف لاہور میں اس سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران ریپ کے 113 کیسز درج کئے گئے ہیں۔ اس مدت میں اجتماعی جنسی زیادتی کے 32 کیسز درج کئے گئے۔ کمیشن نے نوٹ کیا ہے کہ یہ تشویشناک صورتحال صرف لاہور یا پنجاب تک محدود نہیں ہے۔ ملک بھر میں خواتین اور بچیوں کو اس قسم کے ظلم اور جرائم کا سامنا ہے۔اس سلسلہ میں کمیشن نے کائنات سومرو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر کوئی خاتون اور اس کا خاندان انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرے تو سماج یا عدالتوں سے ان کی داد رسی نہیں ہوتی۔
School
کائنات سومرو کو 2007ء میں سکول سے گھر آتے ہوئے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اسے چار افراد نے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ان میں ایک باپ اور اس کا بیٹا بھی شامل تھے۔ تین روز بعد یہ 14 سالہ بچی بمشکل فرار ہونے میں کامیاب ہوئی۔کائنات کے باپ نے اس جرم کے خلاف مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے مسترد کر دیا۔ بعد میں ایک مقامی جرگہ نے اس بچی کو کاری قرار دے کر اس کے قتل کا حکم صادر کر دیا۔ اہل خاندان نے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا اور کراچی میں پناہ لی۔
ایک این جی او کی مدد سے جب یہ معاملہ عدالت تک پہنچا تو مجرموں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کائنات نے ان چاروں میں سے ایک فرد سے شادی کی تھی اور اس بارے میں نکاح نامہ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس سوال پر کہ اس وقت تو بچی کی عمر 14 برس تھی یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ بڑی عمر کی دکھائی دیتی تھی اور اس نے یہی بتایا تھا۔ حیرت انگیز طور پر عدالت نے نہ صرف یہ کہ لڑکی اور اس کے اہل خاندان کے بیان کو مسترد کر دیا بلکہ مجرموں کی طرف سے پیش کئے گئے جعلی نکاح نامہ کو بھی درست قرار دیا۔ اس دوران اس جرم میں شریک لوگوں کی طرف سے خاندان کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک حملہ میں کائنات کے بھائی کو قتل کر دیا گیا۔
اس کے باپ کو بھی ایک حملہ میں زدوکوب کیا گیا۔ کائنات کو متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکی مل چکی ہے۔ ابھی تک اس فیصلہ کے خلاف اپیل عدالتوں میں زیر غور ہے۔جنسی زیادتی کے معاملہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران لاہور اور فیصل آباد میں سامنے آنے والے واقعات کے بعد پاکستان میں جرم اور سزا کے حوالے سے ایک انتہائی افسوسناک بحث بھی شروع کی گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس بحث میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اس بھیانک جرم کی سنگینی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
۔ ان کا مؤقف ہے کہ ریپ کے کسی کیس میں 4 عینی شاہدوں کے بغیر کوئی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ قرآن میں اس سلسلہ میں واضح حکم آ چکا ہے۔ اس سوال پر کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کو انصاف کیسے ملے گا ؟ جماعت اسلامی کے امیر فرماتے ہیں کہ ایسی خواتین کو خاموشی سے گھر بیٹھنا چاہئے۔ایک ذمہ دار سیاست دان کی طرف سے اس قسم کی بیان بازی سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی سماج میں کیوں کر عورتوں کے حقوق تاراج ہو رہے ہیں۔
Rape
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لاہور میں ایک کمسن بچی کے ریپ کے معاملہ کے بعد پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے اس واقعہ کو مقابلہ بازی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس سانحہ کی جزیات تفصیل کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ نشر کی جاتی رہی ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں مظلوم لڑکی کے پورے خاندان کا سراغ لگا کر انہیں ٹیلی ویڑن پر اپنے تاثرات بیان کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ہمدردی اور انسانیت کے نام پر میڈیا کی سستی شعبدہ بازی سے بھی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خواتین کے حوالے سے حقوق کا معاملہ سنجیدگی سے زیر بحث لانے ، قوانین کو تبدیل کرنے ، انصاف مہیا کرنے کی بجائے شہرت اور لذت تک محدود کر دیا گیا ہے۔
حالانکہ زیادتی اور ظلم کا معاملہ کسی ایک بچی یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کے علاج کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنے رویّے اور طرز عمل پر از سر نو غور کرنا ہو گا۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے خواتین کے خلاف جرائم کے بارے میں میڈیا کی رپورٹوں کی بنیاد پر جو حقائق نامہ تیار کیا ہے اس کے مطابق سال رواں کے پہلے سات ماہ کے دوران 44 خواتین پر تیزاب پھینکا گیا جن میں سے 7 زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہو گئیں۔ اتنی ہی تعداد میں عورتوں کو زندہ جلانے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے 11 ہلاک ہو گئیں۔
2013ء کے دوران عزت کے نام پر پاکستان میں 451 خواتین کو ہلاک کیا گیا۔ 2012ء کے دوران عزت کے نام پر 918 خواتین کو مارا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران بھی خیبر پختونخوا میں تین خواتین کو عزت کے نام پر ان کے اہل خاندان نے قتل کر دیا۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ صورتحال بلاشبہ تشویشناک ہے۔ ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے کسی انفرادی کیس پر اعلیٰ سطح تک پریشانی کا اظہار کرنے کی بجائے خواتین کے تحفظ کے لئے مؤثر قوانین بنانے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جلد اور سخت سزائیں دینا ضروری ہے۔
بھارت میں حال ہی میں جنسی زیادتی کے معاملات میں سزاوں کو بڑھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان مقدمات کی سماعت خصوصی عدالتوں میں کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے تا کہ متاثرین کو جلد انصاف مل سکے۔حکومت پاکستان کو بھی اس سماجی علت سے نمٹنے اور ملک میں خواتین کے حقوق کو مستحکم کرنے کے لئے سنجیدگی سے ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے۔ اسلام کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے استعمال کرنے کی بجائے ان کے ساتھ زیادتی کے لئے دلیل بنانے کا رویہ بھی انتہائی مضر اور افسوسناک ہے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی کے ساتھ علماء اور سیاستدانوں کو مل کر اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔