نئی دنیا جس قدر تیزی کے ساتھ ترقی پذیر ہورہی ہے اسی تیزی کے ساتھ پوری عمومی طور پر پوری دنیا اور خصوصی طور پر مسلم معاشرے کی اخلاقیات کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ اس اخلاقی گراوٹ کے سامنے بظاہر تو کوئی بند باندھنے کی کوشش نظر نہیں آرہی اور اگر کہیں کہیں اس کی رمق موجود بھی ہے تو اس کا قابل بیان حد تک فائدہ مجموعی ملت کو ملتا ہوا ابھی تک نظروں سے اوچھل ہے۔ پاکستان کی مسلمان ممالک اہمیت و حیثیت کوئی پوشیدہ نہیں۔اخلاقی تنزلی کے اس رو میں ارض پاک بھی بہتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نیکی و جائز امور میں اگر سہولت پیدا کی جائے گی تو معاشرہ درست سمت کی جانب پیش قدمی کرے گا اور وہ ہی معاشرہ اعلیٰ اخلاق و کردار کا مثالی مظہر ہوگا۔ اگر کسی معاشرے میں نیکی اور جائز امور کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا جائے گا تو اس کے جواب میں ناجائز و برے امور کے لیے چور دروازے اس قدر تیزی سے کھلتے جائیں گے کہ اس سے بپاہونیوالی تباہی کا شاید ہی کسی کو احساس و ادراک ہو۔
راقم کی نظر میں مسلم و پاکستانی معاشرے میں سے اخلاقی گراوٹ کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے چند ایک کو ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اخلاقی بے راروی کے تین اہم سبب ہیں۔ اول معیشت، دوم معاشرت اور سوم میڈیا ہے۔ معاشرے میں تباہی و بربادی اور اخلاقی قدروں کے قتل عام اس وقت ہوتا ہے جب حلال اور جائز امور کی انجام دہی میں غفلت برتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ چند روز سے جنسی زیادتی کی خبریں منظر عام پرآئی ہوئی ہیں کہ فلاں فلاں مقام پر فلاں فلاں طرح کے لوگوں نے معصوم بچوں اور بچیوں کو اپنی ناپاک ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ ان خبروں کی ہر جانب سے مذمت کی گئی حکمرانوں نے مذمتی بیانات جاری بھی کیے اور ملزموں کا قرار واقعی سزا دینے کی باتیں بھی کی ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان یکایک طوفان بد تمیزی میں گم ہوکر حیوانی صفت کا مرتکب کیوں گر ہوگیا؟؟؟؟ اس نکتہ پر اب تک کوئی غور و فکر نہیں کی گئی۔
Educational Institutions
سیدھی سی بات ہے جب معاشرے میں نکاح جو کہ ایک سنت عمل ہے اس کو کاروبار بنا لیا جائے گا تو تباہی و بربادی اور اخلاقی انحطاط کا پیدا ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ اسلام نے انسان کی فطری ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے نکاح کا حکم دیا ہے تاکہ ہرفرد اپنی خواہش نفسانی کو جائز مقام پر پورا کرے۔ جبکہ یہ حکم بھی دیا ہے کہ جب بچہ بالغ ہوجائے توبغیر لیت و لعل کے اس کا نکاح کر دیا جائے۔ حضرت سید ابوالحسن ندوی فرماتے ہیں کہ” اس سنت کو پورا کرنے میں صرف دو اساسی شرطیں ہیں کہ مرد بیوی کا حق مہر اداکرنے اور اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری قبول کرے اس کے علاوہ موجودہ معاشرے میں رائج جہیز، سونا، زمین تمام تر رسمیں خلاف اسلام ہیں۔ اب جب کہ معاشرنے اس نیک کام کو مشکل نہیں بلکہ مشکل تر بنادیا ہے تو ظاہر ہے اس سے معاشرتی و اخلاقی زوال جنم لے گا۔ والدین کو جب اس جانب متوجہ کیا جاتا ہے کہ اس پرفتن دور میں جہاں چاروں اطراف سے نئی نسل پرحملے ہورہے ہیں خدارا اپنے بچوں کی حفاظت کے پیش نظر بروقت نکاح کریں تو ان کی جانب سے ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ بچہ ابھی روزگار نہیں کماتا۔
اس میں معاملہ فہمی کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اس وجہ سے ہم اس سنت پر عمل کرنے سے معذور ہیں۔ اس نیک و جائز کام کے سامنے معیشت و معاشرت کا رونارو کر بند باندھ دیا گیا مگر اس کے رد عمل کے نقصانات سے دانستہ طور پر چشم پوشی کرلی گئی اس کے نتائج بیان کرنے کی ضرورت نہیں……! جب کہ یہ بات واضح ہے کہ بچہ کی ولادت سے لے کر جوانی تک کے عرصہ میں سب والدین، معاشرہ، مدرسہ و مسجد، تعلیمی اداروں اور حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ اس کی اس انداز سے تربیت کرنا کہ وہ باعزت روزگار حاصل کر سکے اور وہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے واقفیت حاصل کر سکے۔ معاشرے میں پھلتے اور پھولتے زوال میں میڈیا کا بھی بڑاکردار ہے جس میں بالخصوص سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھیانک ناک ہے۔ آج کا بچہ بمشکل شعور کی منزل میں قدم رکھتا ہے کہ اس پر سوشل میڈیا کا جادو منکشف ہوجاتا ہے اور اس سوشل میڈیا پر اچھی اور صاف سرگرمیوں کی بنسبت اخلاق باختہ اور فحش سرگرمیاں عروج پر جن کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہرذی شعور ان سے آگاہ ہے۔
دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا پر اپنے کاروبار کو عروج بخشنے کے لیے بہت سے متجسس پروگرامات نشر کیے جاتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ فلاں فلاں مقام پر فلاں فلاں قسم کے فحش کام ہو رہے ہیں، ان کو اس انداز میں نشر کیا جاتا ہے کہ ان سے درس عبرت حاصل کرنے کی بجائے وہ پروگرامات فحش سرگرمیوں میں ملوث افراد کے حوصلوں کو مزید جلا بخشتے ہیں۔ کیوں کہ ان تمام تر پروگرامات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ہوبہو ابھی ہو رہا ہی اور دوسرا ان میں برائی کو تو بیان کیا جاتا ہے مگر برائی کے وجود میں آنے کے سبب اور اس کے نقصانات اور اس سے بچنے کی تدبیر بیان کرنے سے احتراز کرتے ہیں کیوں کہ میڈیا کا کام ہے خبر کو نشر کرنا اور صحت مند منافع حاصل کرنا۔ اصلاح معاشرہ تو ان کی ترجیحات میں کہیں شامل ہی نہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر والدین، اساتذہ، علمائ، حکمران اور معاشرے کے تمام افراد اگر نوجوانوں میں سرطان کی طرح پھیلتے جراثیموں کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں تو وہ اپنی نئی نسل کی اخلاقی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے اپنے ترک کیے ہوئے فریضہ کی انجام دہی کریں۔
اس کے ساتھ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی سوشل میڈیا اور ہر طرح کی روزمرہ کی مکمل سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔حکمران ملک پاک میں اخلاق باختہ تمام ٹی وی پروگرامات، فحش فلمیں اور ڈرامے چلانے والے چینل پر پابندی عائد کرے۔ میڈیا کے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے کاروبار کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے اول اصلاح معاشرہ کے فریضہ میں اپنا دینی کردار ادا کرے۔ علما کرام پر لازم ہے کہ وہ نکاح جیسی سنت کی حقیقی روح کی دیانت داری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں تشریح کریں تاکہ معاشرہ نکاح جو کہ سنت ہے کو فروغ دینے میں مدد ملے اور جملہ بدکاریوں سے ہمیشہ ہمیشہ کی نجات حاصل کی جا سکے۔ آج ہی سے معاشرے کے تمام محرک کرداروں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم نیک وحلال کام کو آسان بنائیں گے اور برے اور حرام کام کی بیخ کنی کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے تو بعید از قیاس نہیں کہ ہم اپنے بڑھتے ہوئے اخلاقی تنزل کو تھامنے میں کامیاب ہو سکیں۔