شام سات بجے سے لے کر رات کے بارہ بجے تک ہمارے ٹی وی شوز میں یا تو سیاست دان ایک دوسرے سے، تو تو تکرار کرتے نظر آتے ہیں یا پھر گفتنی نشستوں، یعنی ٹاک شوز کے میزبانوں کے ہاتھوں سیاست دان، معذرت کے ساتھ اپنی درگت بنوا رہے ہوتے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میڈیا کے پاس سیاست دان کے علاوہ اور کوئی ایسی جنس دستیاب نہیں یہ ظرف، سیاست دان کا ہی ہے کہ وہ روز ان کی لگائی گئی عدالتوں میں پیش بھی ہو، پوچھے گئے سوالات کا ہنس کر، جواب بھی دے اور اگلے روز پھر اپنی ہتک کروانے کے لئے، حاضر بھی ہو جائے۔ سیاست دانوں کے علاوہ دوسرے ریاستی عہدیداروں کی ٹی وی پر حاضری اور ان سے پوچھے جانے والے سوالات کا تناسب شاید ایک فیصد بھی نہیں۔ کیا آپ نے کسی تاجر کو، سیاست دان کی طرح کسی ٹاک شو میں، اس سوال پر رسوا ہوتے دیکھا کہ وہ ٹیکس چوری کیوں کرتے ہیں۔
کیا کسی حاضر سروس نہ سہی، سابق جج یا جرنیل کو اس کی کسی ماضی کی غلطی یا بے ایمانی پر کسی ٹی وی مذاکرے کے میزبان کے کٹہرے میں کھڑا پایا؟ شاید نہیں! تین چار سال کے، اس روزانہ کے عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹاک شوز کے میزبانوں کی وجہ سے سیاست دان ملعون ٹہرایا جا چکا ہے۔ سوال کرنا، لوگوں تک یہ اطلاعات پہنچانا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ان کے منتخب نمائیندے کیا کر رہے ہیں، بلاشبہ میڈیا کا کام ہے۔ لیکن یہ کام بھی میڈیا کے سوا اور کسی کا نہیں کہ وہ عوام کو یہ بتائے کہ ان کے تنخواہ دار اور ان کی خدمات پر مامور سروس آف پاکستان کے ارکان کیا کر رہے ہیں۔ ان کے یہ خدمت گار اپنے فرائض ادا کر بھی رہے ہیں یا نہیں؟ لیکن افسوس کے ساتھ، اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان کا میڈیا مجموعی طور پر اس پہلو میں کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ صحافت کے اس میدان میں بہت سے پریشرز ہوتے ہیں سو آسان ہدف سیاست دان ہے۔
Yousuf Raza Gilani
دنیا بھر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن دنیا میں ایک نا کام سیاست دان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اگلے سیاست دان کو عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے۔ ہم جس طرح کا ماضی اور سیاسی و معاشرتی رویوں کی تاریخ رکھتے ہیں وہاں اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاتا۔ یہاں منتخب نا کام حکومت پر تنقید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جمہوری حکومت کی جگہ پر کسی غیرمنتخب حکومت کا قبضہ۔ ہم نے جس طرز کی صحافت اپنا رکھی ہے وہ صحافت کرتے وقت ہم بس یہی حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ہماری اسی طرز صحافت کا ہی نتیجہ ہے کہ کور کمانڈرز کے اجلاس میں سیاسی قیادت کی ناکامی کو جواز بنا کر، چیف آف آرمی سٹاف کو اقتدار سنبھالنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کو باور کروانا پڑتا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ اس میں بھی ہماری صحافت اور ٹاک شوز کا بڑا عمل دخل ہے کہ کراچی کے چیدہ چیدہ تاجروں کو سول حکومت سے مایوس ہو کر چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کرنی پڑتی ہے اور چیف آف آرمی سٹاف کو ان تاجروں کو، بادل نہ خواستہ وہ یقین دہانیاں کروانا پڑتی ہیں۔
جن کے وہ آئین و قانون کے مطابق مجاز بھی نہیں۔ اب حالات کی ایک اور صورت کا جائزہ لیجیئے امریکہ کی کونسل آن فارن ریلشن اور آسپین انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ ایسی صورت میں اس کے حصے بخرے ہونے کا خطرہ ہے اور پاکستان کے ٹوٹنے کی صورت میں اس کے ایٹمی اثاثوں کا تحفظ مسلئہ بن سکتا ہے۔اس رپورٹ میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لئے ٹیکنیکل معاونت جاری رکھنے کے ساتھ ان کی کسی دوسرے ملک منتقلی بھی روکے۔ دوسری طرف امریکہ ہاتھ دھو کر پاکستان کے پیچھا پڑا ہے کہ اس کے افغانستان میں پوری طرح متحرک حقانی نیٹ ورک کے ساتھ رابطے ہیں۔ امریکہ کا شدید دباؤ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی جنوبی وزیرستان میں موجود پناگاہیں پاکستان ختم کرے۔
حالانکہ سپین میں چیف آف آرمی سٹاف نے اور اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دو ٹوک الفاظ میں باور کروا دیا تھا کہ پاکستان اپنی خود مختاری اور قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے گا لیکن اس کے باوجود اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو امریکہ میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کچھ گھنٹوں کے لئے امریکہ گئے اور لیون پینٹا اور ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات کر کے آئے۔ اس کے باوجود پاکستان پر دباؤ برقرار رہا۔ ان حالات میں پاکستان کی سلامتی کی ضامن، پاک فوج ہی ہے۔ وہ پاک فوج جو اپنی آئینی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر پوری طرح کاربند ہے، جس کے پیچھے منتخب سیاسی قوت کی شکل میں پوری قوم کھڑی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی آبزرویشن پر غور کیا جائے کہ سب اپنی اپنی حدود میں رہیں۔
حکومت ایک سیاست دان سے لے کر دوسرے کسی بھی سیاسی گروہ کو دینا یہ عوام کا حق ہے اور یہ انہی کے پاس رہے۔میڈیا کا کام سوال اٹھانا ہے تو پھر وہ بلاتفریق ہر ذمہ دار کے سامنے اٹھائے بس سیاست دان کو ملعون نہ ٹہرائے۔ یہاں ناکام سیاست دان کا مطلب ناکام جمہیوریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ناکام سیاست دان کا متبادل ایک کامیاب سیاست دان ہے، کوئی آمر نہیں۔