بچوں کے حقوق اور ہمارا قومی کردار

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں بچوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، ان کی آواز سنی جاتی نہ ان کا الگ بجٹ ہے۔ آج ملک میں کروڑوں بچے گلی محلوں میں بھیک مانگتے ہوٹلوں ورکشاپس اور گھروں میں انتہائی کم اجرت پر کام کر رہے ہیں پاکستان میں اس وقت 9کروڑ بچے ہیں جن میں سے 40 فیصد غربت کی لکیرسے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔بچوں کے حقوق کے متعلق شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاق اور صوبوں میں تعاون اور مانیٹرنگ کے نظام کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار سربراہ چلڈرن کمپلینٹ اعجاز قریشی نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہاں کہ پاکستان میں یونیسیف کے تعاون سے جاری بچوں کے تحفظ اور ترقی کے اس پروگرام کو کامیاب کرنے کیلئے میڈیا اور سول سوسائٹی کا تعاون انتہائی ضروری ہے چائلڈ لیبر قوانین کو موثر بنا کر بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتاہے۔ بتایا جاتا ہے کہ20 نومبر 1989ء کو اقوام متحدہ کی جنر ل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہد ہ کی منظوری دی۔ اس معاہدے پر پاکستان سمیت دنیا کے 190 ممالک نے دستخط کئے ہیں۔ یہ معاہدہ بچو ں کو سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق فراہم کرتا ہے۔

جب کو ئی حکومت کسی کنونشن کی توثیق کر دیتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس میں شامل تمام قونین کی پابندی کیلئے رضا مند ہے۔ پاکستان کے بچوں کے حقوق کے کنو نشن کی توثیق 12 نو مبر 1990 ء کو کی گئی جس کے مطا بق اب حکومت اس بات کو یقینی بنا نے کی ذمہ دار ہے کہ ہر بچے کو سی آراسی کے تحت حقوق ملیں۔ بچو ںکے حقوق کے عا لمی معا ہدے کے مطابق بچوں کے حقوق یہ ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو بچہ مانہ جائے گا، بچوں کے حقوق کیلئے معائدے میں غیر امتیازی سلوک، بچے کا بہترین مفاد، حقوق کا نفاذ، بچوں کی صلا حیتیں، زندگی پرورش، نام شہریت، تحفظ و شناخت، والدین سے علیحد گی۔

خاندانی رشتے، اغو ا اور عدم واپسی، بچوں کی رائے، آزادی اظہار، سو چفکر یمذہب ،تنظیم سا زی کی آزا دی ،تنہائی یا خلوت کا تحفظ ،منا سب معلوما ت ،والد ین کی ذمہ داری، تشد دسے تحفظ، بچے کی حفاظت، بچے کو گودلینا، مہاجر/پناہ گزین بچے، معذور بچے، صحت اور سہولتیں، نگہداشت کے مراکز، معاشرتی تحفظ، معیار زندگی، تعلیم، بہتر تعلیمی نظام، خصوصی /اقلیتی بچے، بچوں سے مشقت، ممنوعہ ادویات سے تحفظ، جنسی تشدد، بچوں کی خرید و فروخت، استحصالی عوامل، جسمانی تشدد، مسلح تصادم، بحالی حقوق اطفال، عدلتی انصاف کا حصول، اعلیٰ معیارکے لیے جدوجہد وغیرہ شامل ہیں۔

Education

Education

بچوں کے حوالے سے وفاقی اداروں جیسا کہ صحت، تعلیم، پولیس اور دیگر وفاقی اداروں سے متعلقہ شکایات کے لئے چلڈرن کمپلینٹ آفس سے رجوع کر یں بچے ازخو د، والدین یا کوئی بھی شہری شکایات در ج کروا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2011ء میں بچوں کے حالات کا مطالعہ شروع کیا گیا اور 2012ء میں اس کا آغاز اور تکمیل ہوئی۔ یہ ریسرچ وفاقی دفتر برائے شکایات اطفال (موجودہ ادارہ قومی کمشنر برائے اطفال )، صوبائی چلڈرن کمپلنیٹ آفسس نے شر وع کی اور اس میں یونیسیف کا تعاون شامل رہا ہے۔ یہ ریسرچ پانچ مو ضوعی شعبو ں ، صحت، تعلیم ، انصاف برائے اطفال، چائلڈلیبر اور بچوں کے لئے نظام میں بہتری لانے کے لئے سفارشات وضع کرتی ہے۔

مطالعے میں بنیادی اور ثانوی دونوں اقسام کی معلومات شامل ہیں جو کہ ماہیتی اور مقداری اورریسر چر کی تجاویز کا ایک مکمل تجزیہ ہے جس میں ہر صوبے، خاص حیثیت کے حامل علاقہ جات اور وفاقی سطح پر رپورٹ کے کنسلٹنٹ کے سا تھ در کار شدہ معلومات کاتبادلہ خیال کرتے ہوئے، اپنے متعلقہ باب پر نظر ثانی کرتے ہوئے، حقوق اطفال کے حصہ داروں کے ساتھ جامع مشاورت کی گئی۔ اس ریسرچ کا مقصد ملک میں حقوق اطفال کے حوالے سے ملک میں موجود خلا کی نشاندہی کرنا۔

ان سے نمٹنے کے لئے پالیسی تجاویز واضح کرنا اور پاکستان میں حقوق اطفال کو مستحکم کرناتھا ۔اس کے علا وہ یہ مطالعہ وفاقی چلڈرن کمپلینٹ آفس (موجودہ ادارہ قومی کمشنر برائے اطفال ) اور صوبائی چلڈرن کمپلینٹ آفس کی ایک مستر کہ کا وش تھی جس نے 18 ویں ترمیم کے بعد بہبود اطفال کے لئے ان دفاتر کے لئے مزید متعاون اور مربوط کا وشوں کے لئے راہ ہموار کی ۔یہ مطالعہ تحفظ حقو ق اطفال کے حلقہ اثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

کیوں کہ پاکستان میں بچوں حیثیت پر حکومت کی جانب سے توثیق شدہ پہلا موضوعی مطالعہ جس میں وفاتی سطح، صوبوں اور خاص حیثیت کے حامل علاقہ جات کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے اور بہبود اطفال پر پالیسی میکرز کی پیس قدمی کے لئے ایک خاکہ وضع کیا گیا ہے۔ شکایات اطفال کے دفاتر کے بنیادی مقصد پاکستان میں بچوں کے محتسب کا نظام پاکستان میں بچو ںکے محتسب کا نظام میں پیشقدمی کے لئے وفاقی چلڈرن کمپلینٹ آفس ( موجودہ ادارہ قومی کمشنر برائے اطفال) نے یونیسیف کے تعاون کے ساتھ پاکستان میں بچوں کیلئے محتسب کے نظام اور چلڈرن کمپلینٹ آفس کی پیش قدمی کے لئے راستہ کا تعین کرنے کے لئے ایک مشاورت کا آغاز کیا۔

 

Norway Children

Norway Children

اس مشاورت کے لئے چیئرمین کی خدمات حاصل کی گئیں جو کہ ناروے میں بچوں کے سابقہ محتسب رہ چکے ہیں۔ چیئرمین نے ناروے میں بچوں کے محتسب کی حیثیت سے آٹھ سال تک خدمات سرانجام دیں، جو کہ کامیابی کے ساتھ خدمات فراہم کر نے والا دنیا کا بہتر قا ئم شدہ محتسب کا دفتر ہے۔ 7 مئی 2013 کوا یک میٹنگ میں وفاقی وصوبائی محتسب نے کنسلٹنسی رپورٹ کی سفارشات کی مکمل توثیق کی۔ وفاقی محتسب نے وفاقی چلڈرن کمپلینٹ آفس (موجو دہ ادارہ قومی کمشنر برائے اطفال )کو عملہ اور بجٹ سے متعلق مدد فراہم کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

قومی کمشنر برائے اطفال ( این سی سی) نے صوبائی محتسب اور سیکرٹری سے ملاقات کے لئے جون 2013 میں صو بائی محتسب دفتر، پنجاب کا دورہ کیا۔ یہ میٹنگ ادارہ قومی کمشنر برائے اطفال (این سی سی)کے ورک پلان کا حصہ تھی۔ صوبائی محتسب دفاتر کو صوبائی چائلڈ کمشنر تعینات کرنے کے لئے، قومی کمشنر برائے اطفال نے سیکرٹری کو وفاقی محتسب کے (این سی سی)تعیناتی، کے مستقبل کے اعمال کار اور صوبائی چائلڈ کمشنر تعینات کرنے ضرورت پر بریفنگ دی۔

(این سی سی) وفاقی محتسب دفتر لاہور کا بھی دورہ کیا اور بچوں شکایات اور تحفظ حقوق اطفال پر انوسٹی گیشن آفیسرزکے کام کاتعین اور بچوں کی شکایات اور تحفظ حقوق اطفال پر ان کے کام میں بہتری کے لئے انوسٹی گیشن آفیسر زسے ملاقات کر چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں یہ صرف حکومتی سظح کا معاملہ نہیں بلکہ آئندہ نسل کی بہتری ہم سب کا فریضہ ہے اور اس کیلئے این جی اوز کو بھی آگے آنا ہو گا۔ علماء کرام، سیاستدانوں سمیت تمام مکاتب فکر کو شش کرنا ہو نگی۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ