تاریخ کم ظرف نہیں ہوتی بلکہ تبدیلیوں کے عمل کی غماز ہوتی ہے۔ نظریات اور عمل پرگرفت افراد کو تاریخ میں منفرد مقام فیضاب کرتی ہے۔ اُن کے اس مقام کا یقین تاریخ کے کندوں پر بوجھ کبھی نہیں ہوتا اگر ان اشخاص کا تناظر اور عمل فرسودہ تاریخ کے دھارے کو بدل دینے کا ہنر رکھتا ہو تو تاریخ کے اوراق ان اشخاص کے زریں کارناموں سے ہمیشہ روشن رہتے ہیں ہر وجود کو فنا ہے۔ مرنا عیب نہیں مگر موت کو مارنا بہت بڑی فتح ہے بہادر مائیں موت کو مارنے والے بیٹے صدیوں میں پیدا کرتی ہیں جو موت کو گلے لگا کے اپنے جینے کا حوصلہ دیں۔
تاریخ نہ مٹنے والی تاریخ جب منصور کو سولی پر لٹکا یا گیا ایسی تاریخ جب بلاول کو چکی میں پیسا گیا ایسی تاریخ سرمدکی بھی ہے تو بھگت سنگھ کی بھی تاریخ شاہ عنایت کی ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کی بھی یہ تاریخ چی گویرا کی بھی ہے تو بے گناہ سیاسی سزائیں کاٹنے والے کارکنوں کی بھی مگر اس تاریخ نے اپنے قلم کے آنسو بہاتے ہوئے ایک اور نام ”میر مرتضیٰ بھٹو شہید ”کا لکھا فیض نے کہا جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے میر مرتضیٰ بھٹو کی جسمانی دوری نے دلوں میں ٹوٹتے پہاڑ کی طرح گھائو کئے مگر اس کی جدوجہد پر عزم حوصلہ، آمریت کے آگے نہ جھکنا اور محنت کش راج کی کامیابی کیلئے اُس کی شہادت ہر جدوجہد کرنے والے کیلئے مشعل راہ ہے۔ چی گویرا نے خوبصورت بات کہی۔
Zulfiqar Ali Bhutto
”مرنا عیب نہیں مگر ہمارے پیچھے ساتھی ماتمی جنازہ نہ اٹھائیں بلکہ آزادی کی جنگ کو مضبوط کریں جیسے سامراج اور اُس کے پالتو کتوں کو خبر پڑے کہ انقلاب کیلئے جدوجہد کرنے والے سر کٹاتے ہیں جھکاتے نہیں” میر مرتضیٰ بھٹو اسی سفر کا راہی تھا اُس نے اپنے نظریاتی رہنما اور سچائی کی جدوجہد کرنیوالے اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو سے یہی سیکھا اُس نے موت کو شرمندہ کیا۔ کئی برس پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے والے ہاتھوں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ یہ خوبصورت ، بہادر اور نڈر نوجوان جوانی کی سب، خواہشوں کو قربان کرکے عظیم مقصد کیلئے ہمیشہ، ہمیشہ امربن جائے گا۔ عظیم انقلاب کا تصور میر کی جدوجہد کیلئے مشعل راہ تھا۔ وہ رات کے اندھیرے کو دیکھنے سے پہلے یقین سے کہتا کہ صبح ہونا ہے۔ مایوسی اور تنہائی میں اُس کانام ضمیر کو جھنجوڑ کے جگانے کی علامت ہے۔ روس کی زیااناتا تولیا کے ساتھی ایک ایک کرکے اُسے چھوڑ جاتے ہیں آخر میں اپنے صرف ایک ساتھی کے ساتھ وہ ہیڈ کوارٹر پہنچتی ہے۔
گرفتار ہونے کے بعد اُس پر بے تحاشا ٹارچر ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اُس کی موت واقع ہوتی ہے۔ زویا کی لٹکی ہوئی لاش پرندوں کی غذا اور دھوپ کی تپش میں ختم ہو جاتی ہے۔ مگر جہاں زویا کی لاش لٹک رہی تھی وہاں آج انقلاب کا سرخ پرچم لہرارہا ہے۔ شہید کسی بھی ایک قوم، ایک فرد، ایک خاندان کی میراث نہیں ہوتے بلکہ پارٹیوں کیلئے سمبل ہوتے ہیں۔ میر مرتضیٰ ایک ایسی پارٹی سے منسلک تھا جو حکمرانوں کیلئے خوف اور کارکنوں کیلئے جلتے ہوئے انگاروں پر ننگے پائوں چلنے کے برابر تھی۔ 5 جولائی 1977 کو ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ملک کے نامزد وزیراعظم کو رات کی سیاہ تاریکی میں چور دروازے سے آکے اپنی ہوس کا شکار کرکے چار اپریل 1979 کو خونی رسی ذوالفقار علی بھٹو جیسے بہادر لیڈر کے گلے میں ڈالی یہ خبر بھٹو خاندان پر بجلی بن کر گری، آمر ضیاء کو دوسری پارٹیوں سے خطرہ تھا یا نہیں مگر پیپلز پارٹی ایک آمر کیلئے تپتی ہوئی ریت پر جلتی پر تیل ڈالنے کے برابر تھی۔
اس لئے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء کا ہدف بھٹو خاندان تھا مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ ٹارچر سیل کی اندھیری کوٹھڑیوں میں ہر نظریاتی ورکر نے کہا کہ میں بھٹو ہو۔ لینن نے ریاست اور انقلاب میں لکھا تھا”تاریخ کے اس سفر میں نظریاتی لوگوں کیساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہر دور کے انقلابی مفکروں کے نظریات اور عوام کی نجات کے آورش کیلئے لڑنے والوں کیساتھ یہی بار بار ہوتا چلاآرہا ہے۔ سبھی انقلابیوں کی زندگیوں میں استحصالی طبقات وحشی کتوں کی طرح اُن پر ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں اُن کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑ کر پیش کیاجاتا ہے۔ بدترین بہتانوں اور ذلت آمیزد شنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے اور جب یہ مرتے ہیں تو کوششیں شروع کردی جاتی ہیں کہ اُن کو ایک بے ضرر قسم کا انسان بنا کر پیش کیا جائے اُن کے بارے اُن کے حوالے سے اِس قسم کی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں اور اُن کو کیا سے کیا بنا کے پیش کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ وہ انسان نہیں کچھ اور تھے اور یوں اس طریقے سے ایسے لوگ سب کچھ قرار پا جاتے ہیں۔
سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی زندگیاں محروم اور درماندہ انسانوں کی زندگیاں بدلنے کیلئے وقف کردی ہوتی تھیں۔ مقصد اس قسم کی زیب داستاں کا ایک ہی ہوتا ہے کہ استحصال زدگان کو دھوکے، فریب، اور سحر میں مبتلا کردیاجائے اور ان بڑے انسانوں کے انقلابی، نظریات پر مٹی ڈال دی جائے اُن کے انقلابی تشخص کو بیہودہ طریقے سے بگاڑ دیاجاتا ہے”۔ میر مرتضی کی سوچ اور نظریہ سماج کے پسے ہوئے طبقے پر ظلم اور جبر کیخلاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ سرخ رنگ انقلاب کی علامت ہے مگر اُسے خبر نہیں تھی کہ اُس کے جسم سے لپٹا ہوا سفید کفن سرخ ہو جائیگا اور بہتے ہوئے خون سے غسل دلوا کے دھرتی ماں کی جھولی میں ڈال دیا جائیگا۔ میر کے جسم پر گولیوں کے کتنے گھائو تھے ہم نے اُنہیں آخری بار نہیں دیکھا۔ قاتلوں نے ہر نشان مٹا دیا جو اُس کی شہادت کے سراغ کے حتمی سرے تک جاتا تھا۔ ممتاز بھٹو نے سچ ہی کہا تھا کہ ذوالفقار مرزا، مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو بھی بے نقاب کریں۔