یہ بات سچ ہے کہ کچھ لوگ ہی زندگی کی رونق ہوتے ہیں اور جب یہ لوگ جدا ہو جائیں تو یہ جہاں بے رونق سا ہو جاتا ہے اور زندگی بوجھ سی محسوس ہوتی ہے اور کچھ غم ایسے ہوتے ہیں کہ بھولائے نہیں بھولتے کہ ان کی کسک اور خلش دم آخر تک محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ کہ وہ کٹھک زند گی کے کاغذ پر جا ودانی نقش چھوڑ جاتی ہے۔ اور پھر یہ زندگی کیا ہے؟ محض دھوکا ہی تو ہے؟ اور کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو اندر سے چیر دیتے ہیں اور پھر ان سے بلا جمود خون کی برسات ہوتی رہتی ہے۔ کچھ ایسا ہی زخم مجھے اس افق آفاق سے نکال کر کہیں اور گہرائی میں پھینک گیا۔ راتوں کو یونہی آنسوں کی جھڑی سی محو جنبش ہوتی ہے۔ اور روح کانپ بھی اٹھتی ہے اور تڑپ بھی اٹھتی ہے۔ اگر لکھنا چاہوں تو قلم لرز اٹھتا ہے۔ دل بجھ سا گیا ہے چونکہ ایک چلتا پھرتا، کھلتے ہوئے پھول کی مانند، نرم طبع اور فاتح دل شخص مجھے اس عالم بے کیف میں بے کیف چھوڑ کر عالم آخر کی طرف کوچ کر گیا ہے۔
یہ داستاں نا تو بیاں ہو پاتی ہے اور نہ ہی برداشت ہوپاتی ہے کہ جب جناب طارق شہید کی یاد مجھے اندر سے توڑ کر اور جھنجھوڑ کر طبع پر قلق کر دیتی ہے۔ مرا دل بے قرار و بے چین اشک خوں روتا ہے اور پھر روح بے چین ہو کر کسی اوارہ کی مانند انھی پرانی یادوں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ اور طارق مرحوم کے ساتھ گزا ہوا زمانہ اور سنہری لمحات کی یادیں آنسوں کی صورت آنکھوں سے برامد ہوتی ہیں۔ اور پھر وہ گلیاں نظر آتیں ہیں کہ جہاں وہ عظیم شخص گھو ما کرتا تھا اور وہ دیواریں نظر آتیں ہیں کہ جن سے ٹکڑا کر اس کی آواز گھونجا کرتی تھی، مجھے آج اس کی وہ خو بصورت اور دلفریب مسکان اور مسکراہت یاد آتی ہے، آج مجھے وہ رات یاد آتی ہے کہ جب ایک طرف ڈھول کی تھاپ تھی تودوسری سو شہنایاں کہ جب میں بیچ محو رقص اور پھولوں کی پتیاں گر رہیں تھیں مگرگلاب میر ے بھائی طارق سے خوبصورت نہ تے اور دیار یا دآتا ہے۔
Government Pakistan
جہاں خوشیاں ناچ رہیں تھیں کہ وہ وہیں دیواریں، وہی لوگ ویسی ہی شام مگر اس شام ہر کوئی پر غم اور سوگوار کہ جی اس دنیا کو چھوڑ جانے کا کہتا تھا اور ویسے بھی جب اس جیسا ایک ہنستا اور مہکتا شخص اس جہاں میں سوگوار چھوڑ کر چلا جائے تو میر ے جیسا جذباتی سا شخص تو یونہی ادھموا سا ہو جاتا ہے اور شخصیت پگھلتی محسوس ہوتی ہے۔ آج احساس ہوا کہ حالی نے ٹھیک کہا تھا کہ” شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا، اک روشن دماغ تھا نہ رہا”۔ اور یہ شعر مجھ بد نصیب کا ہی ہے کہ ”کیا تجھ کو بتائوں میں زندگی کی حقیقت، زند گی تو حقیقت میں بلبلا ہے، جنبش پون بھی تو ڑ گئی حباب کو، یہی ہے بس زندگی انساں اور کیا ہے؟”اور آج محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے میر ے قلم سے یہ شعر شاید اس کے لیے ہی لکھوایا تھا۔ اور پھر کیا ہو گیا! آہ اگست کی وہ کالی شام!کہ جب قہر کی طرح ٹوٹی اور اس جہاں سے طارق وڑائچ جیسا شخص جدا کر گئی۔ اور وہ عظیم شخص کہ جس کی طبیعت کی لذت سے ہر شخص کا چہرہ کھلکھلا اٹھتا اور جس کی اخلاق کی آج خلق قدوس گواہ ہے۔ اور یقینا جس شخص کی شخصیت کوئلے کو برف میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
ایسا شخص کہ جس پہ ایک نہیں بلکہ ایک ہزار کالم لکھنے کو جی چاہتا ہے مگر سچ کہوں تو آج پہلی مرتبہ میر ے پاس الفاظ کا قحط ہے چونکہ مجھے اس عظیم اور نیک صفت شخص کی تعریف اور ڈیفینیشن کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔ شاید کے زمانہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی نئے الفاظ ایجاد کر سکے۔ اور یہ سچ ہے کہ ایسے انسان صدیوں بعد جنم لیتے ہیں اور بیشک آج ایسے لعل ڈھونڈنے سے نہیں ملتے اور یہ شعر بھی شاعر نے خاص ہی کہا کہ ”بلبل ہند مر گیا ہیہات، کہ جس کی بات بات میں تھی اک بات”۔ اور اس وقت تومیں طارق مرحوم کی یاد میں اند ر سے پھٹ جاتا ہوں کہ جب یہ ادراک ہوتا ہے کہ یہ عظیم شخص اس شام ہمار ی اندھی ،ننگی اور بے بس حکومت کی نااہلی اور نالائقی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس شام کہ جب دو نامعلوم انسان نما سفاک، وحشی درندوں نے فائرنگ کر کہ زخمی کر دیا اور پھر یہ جوان ہزاروں افراد کو سوگوار چھوڑ کر مقام شہادت پر فائز ہوا۔
مگر دوسری طرف یہ واقعہ گوجرانوالہ جیسے بڑے شہر میں بیچ چوراہے حکومتی رٹ کو ننگا کر گیا چونکہ حکومتی رٹ کے جسم پر جو ایک عدد بوسیدہ سی چڈی تھی وہ بھی اتر گئی اور پنجاب کی بے ہوش حکومت موندی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ اور یہ کالی وردیاں اندھیر ے میں ہی تیر مارتی ر ہیں کہ یہ بھی کیا کر سکتے ہیں؟ اور یہ واقع حکومت وقت کہ چہر ے پہ سیاہی مل گیا بلکہ چہرہ سیاہی میں ہی ڈبو گیا۔ اور پھر آپ کی گڈ گورننس کہ جس کی تعریفیں کرتے منہ خشک ہو گئے اور اشتہار دے دے اخباریں کالی کر دیں کہ اس ایک واقعہ نے یہ ساری نام نہاد گڈ گورننس اڈھیر کھدیڑ کہ رکھ دی اور یہ نام نہاد خادم اعلیٰ صاحب!آپ کر بھی کیا سکتے ہیں ،دو چار تعزیتی بیان دے دیے، یا کھوکھلی اور بے معنی تسلیاں یا زیادہ سے زیادہ اس چوک کو طارق شہید چوک کا نام دے دیا۔
ادھر لوگ رنج و دکھ کی صلیب پہ لٹکتے رہے، اور میر ے جیسے بیسیوں غم و قلق کے پھانسی گھاٹ پہ جھولتے رہے۔ مگر آپکو کیا فرق پڑتا ہے؟ مرحوم کو آسودہ خاک کیے کئی دن گزر گئے مگر اس لمپر، اپاہج اور فالج زدہ حکومت نے کیا کر لیا؟ اور سوال یہ ہے کہ آخر قصور کیا تھا؟ کیا قصور یہ تھا کہ ہم جس صوبے میں رہتے ہیں وہاں آپکی حکومت ہے۔ یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں گھستی کہ ایک ایسا صوبہ کہ جہاں پر عوام کی جان ومال بلکہ کوئی شہ محفوظ نہیں ایسے صوبے کو مثالی صوبہ کہتے ہوئے لوگوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔