دریائے ستلج

River Sutlej

River Sutlej

قانون کی بالا دستی اور حکومتی رٹ کو قائم رکھنے کے لیئے۔ پولیس اقدام خودکشی پر قانونی تقاضے پوری کر چکی تو خودکشی کرنے والی بچی کو قبر کے اختیار میں دے دیا گیا۔ گاوں کے لوگ تعزیت کے لیئے اس کے والدین کے پاس جانے لگے۔میرا دل بھی دکھی تھا۔میں بھی اپنے اپ کو مجرم سمجھ رہا تھا۔میرا اس سے کوئی رشتہ تو نہیں تھا لیکن وئہ میرے گاوں کی بچی تھی اس کے سینے میں بھی مریم نواز اوراصفہ بھٹو جیسا دل دھڑکتا تھا اور اس میں بھی معصوم خواہشات تھیں۔

اس بچی نے اپنی ایک خواہش کو والدین کے ساتھ شیئر کیا۔لیکن وئہ اس کی خواہش کو پورا نہ کر سکے۔ بچی نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ خود کشی اور خود سوزی کا فیصلہ کرنا اسان نہیں ہوتا۔ میرے سامنے اس بچی کا باپ بیٹھا تھا۔ مجھے بڑا مکارلگ رہا تھا۔ میرے خیال میں وئہ اپنے اپ کو افسردہ اور غمزدہ ظاہر کرنے کی اداکاری کرکے فاتح خوانی کے لیئے انے والوں کی ہمدردیاں حاصل کر رہا تھا۔ انے والے افسوس کا اظہار اور صبر کی تلقین کر رہے تھے۔

لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ میرے نزدیک یہ شخص ظالم ہی نہیں مجرم بھی تھا۔ جس نے اپنی جوان بیٹی کے لیئے خودکشی کی راہ ہموار کی تھی۔ جو اسے بچا سکتا تھا۔ اس جرم میں اس کی ماں بھی شامل تھی۔جو اپنی بیٹی کے ہاتھوں پر مہندی لگانے کی ارزو پوری کرنے سے پہلے اسے موت کے منہ میں جانے سے نہ روک سکی۔ ایسے ماحول میں میرے لیئے وہاں بیٹھنا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔میں بڑی مشکل سے ضبط کر رہا تھا۔ میرا دل بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔ میں اس کے باپ کے گریبان کو پکڑ کر یہ کہنا چاہتا تھا۔کہ تم ظالم ہو،قاتل ہو نئے کپڑے کے ایک جوڑے کی خاطر تم نے بیٹی کی زندگی گل کر دی۔

تم کیسے باپ ہو؟ جو بیٹی کی معمولی سی خوا ہش اور خوشی کی خاطر چار پانچ سو روپے کا بندو بست نہ کر سکے۔ میں چاہتا تھا کہ اسے بتا دوں کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ جب ملک کا وزیراعظم کہہ رہاہ ہو کہ اقتصادی صورتحال بہتر ہے۔ ترقی کے فوائد نچلی سطح تک منتقل ہورہے ہیں۔ لیکن تم نہ جانے کس سازشی گروہ کے ألہ کار بن کر اس ترقی کی نفی کر رہے ہو۔اس کو جھٹلا رہے ہو۔تم جھوٹے ہو۔تمہیں خبر نہیں کہ پاکستان تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میںشامل ہو چکا ہے۔پھر بھی کہتے ہو کہ تمہارے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔تم حالات سے مجبور تھے۔

Unemployment

Unemployment

تمھارے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ تم اپنی بیٹی کی چھوٹی سی خواہش پوری کر سکتے۔ اب تو بیروزگاری کی شرح میں بھی کمی أرہی ہے۔ حکومت کی ٹھوس اقتصادی پالیسیوں کے مثبت نتائج سامنے انے والے ہیں۔ افرادی قوت کے شعبے میں ترقی کا رجحان برقرار ہے۔ معیشت کے تمام شعبے ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ جی ڈی پی میں اضافے کا ہدف حاصل کیا جا چکا ہے۔ فی کس امدنی میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ 75 بلین انکم سپورٹ پروگرام کے ذرئیے گراس روٹ لیول پر تقسیم کیئے جا رہے ہیں۔۔ 20 ارب پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے ذریعے تقسیم ہونے والے ہیں۔

اس کے باوجود حالات کا رونا رو رہے ہو۔ حکومت کو ایسے لوگوں کو گرفت میں لینا چاہیے۔ جو ترقی کی اس رفتار کو،اعدادوشمار کی سچائی کو جھٹلاتے پھر رہے ہیںاور حکومت کی بدنامی سے نفرت کا جواز پیدا کر رہے ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے ایک سروے کے مطا بق 40 فیصد لوگ ناخوش نظر اتے ہیں۔ میری جذبا تی کیفیت اہستہ اہستہ کم ہوتی گئی۔ میں نے تصور میں ہی اپنے غم کا بوجھ ہلکا کر لیا فاتحہ خوانی کے لیئے انے والے جا چکے تھے۔ بدنصیب لڑکی کا غمزدہ باپ اور میں بیٹھے تھے۔ وئہ کہنے لگا واقعی میں مجرم ہوں۔

میں نے اس کی ایک نئے جوڑے کی خو اہش کو پورا کرنے کے لیئے پوری پوری کوشش کی تھی لیکن مجھے وئہ وسائل دستیاب نہ ہو سکے جن سے میں کپڑے کا ایک جوڑا خریدتا۔ میں تو اتنا بد نصیب ہوں کہ اپنی بیٹی کو کفن کا اخری تحفہ بھی نہ دے سکا۔لیکن وئہ بڑی عظیم اور دوراند یش بیٹی تھی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس کے والدین ایک جوڑے کے لیئے بے بس ہو گئے ہیں لہذا ان سے جہیز کا مشکل ٹیسٹ نہ لیا جائے۔

شاید اسے اس بات کا بھی ادراک تھا کہ حالات کی سنگینی بہت جلد ہماری خوشحالی کا بھرم توڑنے والی ہے بہتر ہے کہ کسی اور جہاں میں جیا جائے۔ وئہ کہنے لگا کاش کوئی ایسا سبب ہو جاتا کہ ہم انسان نما مخلوق کے بچوں کو ائیندہ کے لیئے کپڑوں، جوتوں، کھلونوں، چوڑیوں اور جہیز نہ ہونے پر کسی نہ کسی طرح خودکشیوں سے بچایا جا سکتا؟ْْْ میرے پاس نہ تو اس کا کوئی جواب تھا اور نہ ہی کوئی حل۔ معاشی انصاف کی اگر کوئی تشریح کرنے والا ہوتا تو اس سے پوچھا جا سکتا تھاکہ خوشحالی کے سرتاج عزیزوں اور اسحاق ڈاروںکے ہوتے ہوئے اتنی بے بسی کیوں ہے۔

ان خود کشیوں کے مقدمات ان خوش فہمیاں بانٹنے والے ہنر مندوں کے خلاف درج کیوں نہیں ہو سکتے؟ یہ تو ایک باپ کی اکلوتی بیٹی کی داستان غم تھی۔ پانچ بیٹیوں کے باپ بشیر احمد راجپوت کا قصہ پھر کبھی سہی جس کی بیٹیوںنے غربت اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ,مناسب رشتے نہ انے کے سبب اپنے اپ کو دریائے ستلج کے حوالے کرکے اپنے مسائل کو حل کر لیا ہے۔ یہ دریائے ستلج بھی کس قدر مہربان ہے جو مجبوروں کی عزتوں کا مان رکھ لیتا ہے۔جو نہ کوئی سوال کرتا ہے اور نہ کوئی جواز پیش کرتا ہے وئہ ضرورت مندوں کی بروقت ضر ورتیں پوری کرتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی دریائے ستلج کیوں نہیں ہو جاتے۔

Mohammad Farooq Khan

Mohammad Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان