بغداد دھماکوں سے گونج اٹھا، 42 جاں بحق

Baghdad blasts

Baghdad blasts

بغداد (جیوڈیسک) عراق کے دارالحکومت بغداد میں کار بم دھماکوں میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور 130 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بم دھماکے بغداد میں صبح کے اوقات میں ہوئے۔ کل 13 بم دھماکوں میں سے 9 شیعہ آبادی والے علاقوں میں ہوئے جن کا ہدف محنت مزدوری کے لئے جمع ہونے والے افراد تھے۔ ایک بڑا دھماکا شہر کے مشرقی علاقے صدر سٹی میں بھیڑ بھاڑ والے بازار میں ہوا جس میں سات افراد ہلاک ہو گئے اور 75 زخمی ہوئے۔

اس کے علاوہ چھ افراد بغداد کے شمالی علاقے شوالہ میں بھی دھماکے میں چھ افراد مارے گئے۔ دھماکوں سے متاثرہ شیعہ علاقوں میں نیو بغداد، حبیبیہ، صبا البور، کاظمیہ، شاب اور ار بھی شامل ہیں جبکہ سنی اکثریتی علاقے جماعہ اور غزالیہ بھی دھماکوں کا نشانہ بنے۔ ان حملوں کی کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ عراق میں فرقہ وارانہ تشدد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

عراق میں جاری فرقہ وارانہ تشدد سے سب سے زیادہ وسطی حصہ متاثر نظر آتا ہے، جہاں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے تاہم حالیہ دنوں میں سنی اکثریتی علاقوں پر حملوں کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اتوار کے روز بغداد کے جنوب میں ایک شیعہ مسجد میں ہونے والے ایک خود کش بم حملے کے نتیجے میں مسجد کی چھت منہدم ہو گئی تھی۔ اس واقعے میں مسجد میں موجود تقریبا 49 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ عراق کے نسبتا پرامن سمجھے جانے والے شمالی کرد حصے کے مرکز میں سکیورٹی فورسز کے ایک ہیڈ کوارٹر پر ہونے والے بم حملے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جمعے کے روز بغداد میں دو سنی مساجد پر ہونے والے حملوں میں 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جمعرات کو بھی بغداد میں سنیوں کی ایک تعزیتی تقریب میں ہونے والے بم حملے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل 21 ستمبر کو شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ایک شخص کی آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔

کہ اس اجتماع کو بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں 73 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اس سے ایک روز قبل ایک سنی مسجد میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں 18 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ عراق میں 2006 سے 2007 میں فرقہ وارانہ تشدد کا عروج دیکھا گیا تھا اور اس میں کئی ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے اور خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ عراق دوبارہ اسی خونریز ڈگر پر چل سکتا ہے۔