شاعر کہتا ہے کہ دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں، اک دلربا ہے دل میں جو حوروں سے کم نہیں اگر محب کی محبت اتنی گہری ہوسکتی ہے کہ اُسے اس دنیا کی عورت جنت کی حوروں سے زیادہ حسین نظر آنے لگے اور وہ اس کی محبت میں دنیا کو جنت تصور کرسکتا ہے تو پھر اُس خالق حقیقی کی محبت کا عالم کیا ہوگا؟ جس نے خوبصورت محب، محبوب، دنیا، جنت اور اس میں حوریں تخلیق فرمائی ہیں؟ لیکن یہ ممکن نہیں کہ انسان دنیا اور جنت سے محبت کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرسکے۔
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام محبتوں سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونا لازم و ملزوم ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے یہ ممکن نہیں کہ گندم کی فصل بوکر آم کے پھل توڑے جائیں اور انگور وں کی بیل اُگا کر کھجور حاصل ہوسکے۔ ظلم و زیادتی اور حدسے تجاوز کرنے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ آج ہم اپنے اعمال درست کرنے کی بجائے دوسروں کوا لزام دے کر اپنے لئے راہ نجات تلاش کررہے ہیں۔
زلزلے کی صورت میں بار بار نازل ہونے والا عذاب الٰہی ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ اب بھی وقت ہے سمجھ جائو ڈرواس بڑے عذاب سے جو ظالموں پر نازل کیا جانے والا ہے۔ آواران میں زلزلے سے ہونے والی تباہی ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پوری قوم گناہوں کی بخشش مانگے اور توبہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں”(البقرة:٤)مسلمان کا روزآخرت پر یقین ہونا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو اُس دن کی تیاری کیلئے دنیا میں کچھ وقت کی مہلت دے رکھی ہے۔
Hazrat Muhammad (S.A.W.S)
جولوگ اسی دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اوردن رات حتیٰ کہ ساری زندگی دنیا کی طلب میں گزار دیتے ہیں، آخرت کے دن کی کوئی تیاری نہیں کرتے جس دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سجے گی اور سب کوان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ اُس دن ایسے لوگوں کے حصے میں صرف خسارہ آئے گا۔ اور وہ سوائے پچھتانے کے کچھ نہ کرسکیں گے۔ اسلام سے پہلے کسی مذہب میں بھی آخرت کا تصور نہ تھا جس کی وجہ انسان اپنی زندگی کی قدروقیمت سمجھے بغیر غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔
عرب لوگ آخرت کے قائل نہ تھے چنانچہ جب سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخرت کے بارے میں بات کرتے اور ان سے فرماتے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہے تو وہ چونک جاتے اور تعجب سے سوال کرتے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ گلی سڑی ہڈیاں پھر سے زندہ ہوجائیں؟ اگر آج کا مسلمان بھی دنیا کی حد سے زیادہ طلب میں تصور کرلے کہ جووہ بسر کررہاہے وہی مکمل اور آخری زندگی ہے تو اُسے ظالم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
حرس ولالچ کااس قدر پجاری ہوجائے گا کہ ساری کائنات کا رزق اپنے گھر میں جمع کرنے کی خواہش کرے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے اندر موجود ہر طرح کی نعمتیں بھی اُسی کی ہیں جسے چاہے جتنا چاہے عطا کردے اور عطا کرنے کے بعد پھر واپس لے لے۔ انسان اس دنیا میں کتنی ہی زیادہ دولت، اُولاد، زر، زمین اور جائیداد کا مالک بن جائے اُسے ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یوں ایک دن اللہ تعالیٰ اپنے زمین جائیداد سے انسان کو بے دخل کردیتے ہیں۔
Wealth
لیکن جن لوگوں کے پاس اچھے اعمال ہوں گے اُنہیں اللہ تعالیٰ اس دنیا کے مال ودولت سے بہتر عطا فرماے گا، یہ وہی خوش نصیب لوگ ہوں گے جنہیں آخرت کا یقین ہوا اور انہوں نے دنیا کی زندگی کو عارضی سمجھ کر روز آخرت کی تیاری کی ہوگی۔ کیونکہ روزحشر یعنی قیامت زیادہ دور نہیں جسے ہم بہت طویل سمجھ رہے ہیں درحقیقت وہ زندگی بہت مختصر ہے وہ دن دور نہیں جس دن اللہ تعالیٰ تمام عالم اور اس میں بسنے والی مخلوقات کو مٹا دے گا اور پھر سب کو ایک دوسری زندگی بخشے گا اور اس دن سب اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے۔
لوگوں نے جو کچھ دنیاوی زندگی میں کیا ہوگا اس کا پورا اعمال نامہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوگا۔ ہر فرد کے اچھے اور بُرے اعمال کا وزن کیا جائے گا، اچھے اعمال والوں کو اجر عظیم اور جنت کا انعام ملے گا اور بُرے اعمال والوں کو سزادی جائے گی۔ بس ہمیں آج اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں صرف دنیا چاہئے یا دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا انعام بھی چاہئے؟ اگر ہم اپنی موجودہ زندگی پر غور کریں تو صاف صاف اندازہ ہو جاتا ہے۔
کہ ہمیں جو مصائب اور مشکلات درپیش ہیں وہ تمام ماضی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والی ظالم قوموں پر نازل ہوچکے ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ دہشگردی، بدامنی، ناانصافی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، بیماریوں کی یلغار، سیلاب جیسے مصائب ہمارا ہمسایہ ملک بھارت یا امریکہ یاکوئی دشمن ملک پیدا کر رہا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ مان لیا کہ بھارت نے دریائوں میں اضافی پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلابی ریلے بھیجے، مان لیا کہ دہشتگردی میں ڈرون حملوں کی وجہ سے شدت آئی۔
U.S.
یہ بھی مان لیا کہ دہشتگرد جو بارود استعمال کر رہے ہیں اسرائیل، بھارت یا امریکہ سے آتا ہے لیکن زلزلے تو بھارت، اسرائیل یا امریکہ نہیں پیدا کرتے۔ دوسروں کو الزام دینے سے ہمارے اعمال درست نہیں ہونگے جن کی وجہ سے آج ہم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ہمیں مصائب اور مشکلات سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنے گزشتہ گناہوں کی مافی مانگ کر آئندہ کیلئے توبہ کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ”اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز عذاب نہیں دے گا اگر وہ گناہوں سے بخشش مانگتے رہیں۔
(انفال:٣٣) البتہ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا مگر وہ لوگ نہ تو اپنے رب کے سامنے گڑ گڑا ئے اور نہ ہی عاجزی کی یہاں تک جب ہم سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تووہ حیرت زدہ ہوجائیں گے (المومنون:٧٦،٧٧)”ڈرو ایسے فتنے سے جو صرف جوتم میں ظالم ہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دوسرے (نیک لوگ)بھی اس میں مبتلا ہوجائیں گے اور یقین کر لو اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے ”ایک جگہ اور ارشاد ہوا کہ ”پس اگر وہ(یونس علیہ السلام)تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو یقینا وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے(الصفات:١٤٤)’اگر اللہ تعالیٰ کے نبی بخشش مانگے بغیر مشکلات سے نہیں نکل سکتے تو پھر آج ہم مسلمان کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔
کیوں ہم اپنے گناہوں کی بخشش نہیں مانگتے؟ کیوں ہم اپنے رب کے سامنے سجدہ ر یز ہوکر مصائب، مشکلات اور عذابوں سے نجات طلب نہیں کرتے؟ کیوں ہم نے آخرت کی خوبصورت زندگی کو بھلا دیا؟ کیوں ہم دنیا کے لالچ میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ اپنا آپ ہی نظر نہیں آرہا؟ آخر کیوں ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھ اور پہچان کر بھی گناہوں سے توبہ نہیں کررہے۔
آئیں اپنے رب کے حضور توبہ کریں، اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں، نازل ہوچکے مصائب، مشکلات اور عذابوں سے نجات طلب کریں، آئیں ہم چھوٹے بڑے تمام طرح کے ظلم کو روک دیں۔ آئیں ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کر کے دنیا و آخرت کا انعام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ دنیا خسارے کی جگہ ہے لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمانبردار بندے بن جائیں تو یہ خسارے کی جگہ بھی جنت سے کم نہیں۔