دنیا کی ہر قوم خوشی کے تہوار مناتی ہے تہواروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی فلسفہ ضرور ہوتا ہے جس طرح مسلمان ایک سنجیدہ امت ہے اسی طرح مسلمانوں کے تہوار بھی سنجیدہ ہیں کیوں نہ ہوں جس امت کو لوگوں کی اصلاح کے لئے اُٹھایا گیا ہوں وہ بردبار، پُروقار اور سنجیدہ ہوتی ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امّتِ وَسَط بنایا ہے۔ تا کہ تم دنیا پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم پر گواہ ہو”۔ البقرا(١٤٣)۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ”اَب دنیا میں وہ بہترین گرو ہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ امتِ وَسَط بنانے کا مقصد ایک امتیازی نشان سے مراد یہ ہے کہ جب آخرت میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی اُمت پر گواہی دیںگے کہ اے ربّ میں نے تیرا پیغام امتِ مسلمہ تک پہنچا دیا تھا۔ اَب تم نے اس امت کو امتِ َ وسَط بنایا تھا یہ اِن کا رہتی دنیا تک کام تھا کے وہ دنیا کی قوموں تک تیرا پیغام پہنچائیں۔
یہ اعزاز کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اس امت نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قائم مقام کی ڈیوٹی ادا کر کے دنیا کی قوموں کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شر یعت کو نافذ کرنا تھا کیا اس امت نے یہ کام کیا؟ یہ ہے امتِ وَسَط کا مفہوم۔ اس امت کے سارے خوشی کے تہوار اس کے شیان شان ہیں۔ عیدالفطر میں مسلمان ٣٠ دن کے روزے رکھتے ہیں تراویح پڑھتے ہیں شب بیداری کا اہتمام کرتے ہیں تہجد کے نفل ادا کرتے اللہ سے رو رو کے اپنے گناہوں کی بخشش کے دعائیں مانگتے ہیں اپنی زکوٰة ادا کرتے ہیں فطرانہ ادا کرتے ہیں اس کے بعد شکرانے کے طور پر عید الفطر کی دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں پھر خوشی مناتے ہیں اسی طرح عید الضحیٰ سے پہلے پوری دنیا سے مسلمان اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں جمع ہوتے ہیں سخت گرمی اور سخت سردی میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں صفاء مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں قربانی کرتے ہیں منا میں خیموں کی بستی آباد کرتے ہیں۔
Masjid Nabawi
مدینے میں مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرتے ہیں سارے مناسک حج کی ادائیگی کے بعد عیدالضحیٰ مناتے ہیں اس سارے پروسس کے اندر جو فلسفہ پوشیدہ ہے وہ قربانی کا فلسفہ ہے امتِ مسلمہ ہر سال عیدُالاضحیٰ پر سنتِ ابراہیم علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور یہ عمل پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں تسلسل سے ہو رہا ہے ابراہیم نے اللہ سے دعُا مانگی اے پروردگار مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔ اُس دعا کے بدلے میں اللہ نے اُس کو ایک حلیم برُدبار لڑکے کی بشارت دی۔ اور حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ وہ لڑکا جب اِس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا گیا تو ابراہیم نے اس سے کہا، بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر ہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے کہا ابّا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے کر ڈالیے آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ آخر میں ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ماتھے کے بَل گرِا دیا۔
ہم نے ندادِی کہ اَے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اِس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اُسکی تعریف اور توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی سلام ہے ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا اور ہم نے اُسے اسحاق کی بشارت دی۔ ایک بنی صالحین میں سے۔ اسے اور اسحاق کو برکت دی اَب اُن دونوں کی ذرےّ ت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ”(الصفٰت١٠١تا١١٣) قارئین! مسلمان عیدُالاضحیٰ کے دن قربانی کرتے ہیں اور قربانی نام ہے۔
خوشی کے موقعے پر اللہ کے راستے میں اپنی عزیز ترین چیز کو قربان کرنے دینے کا یہی سبق ہمیں سنتِ ابراہیم سے ملتا ہے کس طرح باپ بیٹے نے اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیمِ خم کر دیا۔ کس طرح باپ نے اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے اپنے بیٹے کو منہ کے بل گرا دیا اور قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر جب اللہ انسان سے راضی ہو جاتا ہے تو سارے عالم میں اپنے پسندیدہ بندے کا نام سربلند کرتا ہے آج دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اللہ کے حکم کے مطابق اُس وقت سے لیکر آج تک اور قیامت تک ہر سال اس سنتِ ابراہیم کو جاری و ساری کئے ہوئے اور کرتے رہیں گے( انشا اللہ) پھر اللہ اپنے ایسے نیک بندوں پر آخرت میں جو انعامات کی بارش کریگا ان انعامات کا احاطہ انسانی ذہن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اللہ مسلمانوں کو اپنی راہ میں بہتریں چیزیں قربان کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ عیدُالاضحیٰ منانے کا یہی فلسفہ ہے۔