حقیقت یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں طالب علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان پیدا ہونے سے لے کر اپنی آخری منزل موت تک کے سفر میں ہر روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ سیکھنے اور سمجھنے کے مراحل سے گزرتا ہے۔ علم صرف حروف و جملوں کی پہچان کا نام نہیں بلکہ علم وہ نعمتِ خداوندی ہے جس کے ذریعے سماج کو نہ صرف سمجھا جا سکتا ہے بلکہ انسانی و حیوانی رویوں کے درمیان امتیازبھی کیا جاتا ہے، علم ہی ہمیں سکھاتا ہے۔
کہ بحیثیت مہذب انسان اس دنیا میں ہماری زندگی گزارنے کا انداز کیا ہونا چاہئے، علم ہی ہمارے اندر اپنے ارد گرد کے ماحول اور سماج کو پر امن اور منظم رکھنے کیلئے مؤثر قانون سازی کا داعیہ پیدا کرتا ہے، علم ہی ہمیں رشتوں کی پہچان سکھاتا ہے، علم ہی انسان اور جانور کے درمیان حدِ فاصل ہے، جاہل انسان بھی ایک طرح سے حیوان ہی لگتا ہے جسے اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے۔
اور اپنی زندگی کو کس طرح گزارنا ہے؟ یہ بات یاد رہے یہاں بات جاہل کی ہے(ظاہری ان پڑھ کی نہیں) بہت سے لوگ ظاہری طور پر ان پڑھ ہوتے ہیں لیکن خداداد صلاحیتوں کے باعث عقل و شعور کے اعلیٰ منا صب پر فائز ہوتے ہیں اور اسی سماج میں رہتے ہوئے حق و باطل کو خوب جانتے اور سمجھتے بھی ہیں۔ جاہل سے مراد وہ انسان ہے جسے اچھے برے کی تمیز ہی نہ ہو، یہ حقیقت بھی انسانی تاریخ میں موجود ہے۔
کہ علم و شعور سے محروم وہ انسان ہی تھے جو اس قدر فکری و معاشرتی پَستی میں مبتلا ہوئے کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا باعث فخر سمجھتے تھے اور ذرا سی بات پر انسانی دشمنیوں کے بیج بوتے اور پھر قتل وغارت گری اور سماج دشمنی کی یہ المناک و خونی داستانیں نسل در نسل صدیوں پر محیط ہوجاتیں، زمانہ جاہلیت کے اسی تاریک دور میں ”اقراء ” (علم) کا عَلم اٹھائے معلم کائنات محسن انسانیت جلوہ گر ہوئے۔
Hadi Alam
تعلیمی و ایمانی انقلاب کے ذریعے، پَستیوں کا شکار تباہ معاشرے و سماج کووہ شاندار اصول وضابطے عطا کیے کہ آج بھی ہادی عالم کا ترتیب دیا ہوا معاشرہ مہذب دنیا کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ فطری کاموں میں سماج کو سمجھنے کا شعور خود بخو د ہی کارفرما ہو جاتا ہے تمام مذاہب اور معاشروں میں بنیادی معاملات پر عموماً لوگ ازخود راغب ہو جاتے ہیں۔
مثلاً بات کرنے کا طریقہ اٹھنے بیٹھنے کے آداب آپسی میل جول کے طریقے ایک دوسرے کے ساتھ برتائو پیشہ ورانہ ماحول یہ وہ سماجی عوامل ہیں جن کا براہ راست تعلق تعلیم و شعور سے ہوتا ہے آج دنیا معلومات کے نرغے میں ہے آپکو جس چیز کے بارے میں معلومات چاہئے مل جائے گی کوئی راز آج راز نہیں ہے مگر بنیادی ضرورت سوچنے اور سمجھنے کی ہے کیا تعلیم کے بغیر سماج و معاشرے کے تعمیری شعور کو بیدار کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہو گا۔
قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم کی بنیادی اہمیت ہے، آج دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے عروج کا راز علم ہے، علمی طاقت کی بنیا د پر آج انسان ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈالے ہوئے ہے، مہذب دنیا کے پر وقار معاشروں اور سماج کی بنیاد علم پر ہی رکھی گئی ہے، اس بات سے کوئی ذی شعور ہر گز انکار نہیں کر سکتا کہ سماجی نظام کو سمجھنے اور عروج و منزلت کا حصول تعلیم ہی ہے۔
تعلیم کے بغیر نہ تو انسان جینے کا ڈھنگ سیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سماج و معاشرے کو سمجھ کر ملک وملت کی تعمیر و ترقی میں کر دار ادا کر سکتا ہے، جن قوموں نے تعلیم کو اپنا زیور بنایا انہیں غلبہ حا صل رہا، تعلیم کے بِنا دنیا اندھیر نگری کی مانند لگتی ہے اقوام کی ترقی و فروغ اور شعوری نشو ونما تعلیم کی مرہون منت ہے، تعلیم کے بغیر انسان بے روح جسم کی مانند ہے، ہما رے معاشرتی انحطاط و زوال کی اساس و بنیاد تعلیم سے دوری ہے، سماج سدھار اور انسانی اقدار کے تحفظ کی جدوجہد میں کامیابی علم و شعور کی بدولت ہی ممکن ہے، موت کے آنے پر انسان تو اس دنیا فانی سے انتقال کر جاتا ہے مگر علم باقی رہتا ہے۔
Salman Ahmed Shaikh
تحریر : سلمان احمد شیخ 0301-2082549 salmanmedia@hotmail.com