یونانی داستان گو ایسوپ کہتا ہے مسلسل خوف کی حالت میں زندہ رہنے سے مرجانا کہیں بہتر ہے۔ لیکن یہاں تو پاکستان سمیت پورا عالمِ اسلام حالتِ خوف میں ہے اور ہم شیر کی ایک دن کی زندگی پر گیدڑ کی سو سالہ زندگی کو محض اِس لیے ترجیع دیتے ہیں کہ ہمیں اسی میں عافیت نظر آتی ہے۔ غالباََ اسی کو امن کی آشا کا نام دیا جاتاہے۔ لاریب اعتدال و میانہ روی دینِ مبیں کا درسِ اوّل لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ہر زمینی خُدا کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز ہو جائیں۔ دین جہاں امن و شانتی کا درس دیتا ہے وہیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم بھی صادر فرماتا ہے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ”اللہ کے نزدیک دو قطروں سے زیادہ کوئی قطرہ پسندیدہ نہیں۔ ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ، دوسرا خون کا قطرہ جو اللہ کی راہ میں گرا۔ اور یہ بھی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی فرمان ہے”اپنے مال کی خاطر لڑو ، یہاں تک کہ آخرت میں شہیدوں میں شامل ہو جاؤ یا اپنا مال بچا لو۔ لیکن جدیدیت کی اِس فضاء میں اِن کُہنہ باتوں پردھیان دینے کی فرصت کہاں۔ ربّ کائینات نے توحکمت کی کتاب میں فرما دیا کہ ”ہم نے قُرآن میں سب کچھ بیان کر دیا ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ گارنٹی دے دی کہ اگر اِس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو قیامت تک گمراہ نہیں ہو گے لیکن ہم تارکِ قُرآن ہو کر رسوا ہو گئے۔ ہمیں ہر ”ازم” میں کشش نظر آتی ہے خواہ وہ سوشلزم ہو یا کمیو نزم ،کیپیٹل ازم یا سیکولر ازم لیکن اگر کسی ازم میں کشش نظر نہیں آتی تووہ ہے”اسلام ازم۔ اسی مکمل ضابطۂ حیات، اسی اسلام ازم کے تحت مسلمانوں نے دنیا پر صدیوں ایسی حکومت کی جس کی نظیر تاریخِ عالم میں کہیں نہیں ملتی اور جس کا بَر ملا اقرار غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ ہم نے اسلاف کی میراث سے روگردانی کر کے رسوا ہو گئے اور غیر سینے سے لگا کر حکمران۔ ہمارے سیکولر دانشوروں کی تان ہمیشہ اِس پر ٹوٹتی ہے کہ ہم پہلے اپنے آپ کو اِس قابل توکر لیں کہ غیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔ بجا ارشاد، سوال مگر یہ ہے کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر تو پھر ہتھیار پھینک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلتوں کے غارِ عمیق میں جا گریں یا پھر مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائیں۔ یہ بجا کہ ہم معاشی طور پر مضبوط نہیں لیکن جب مشرکینِ مکّہ نے مسلمانوں پر پہلی جنگ مسلط کی تب اُن کی معیشت کتنی مضبوط تھی۔
Mohammad Bin Qasim
بدر کے میدان میں مسلمانوں کے پاس کتنا جنگی سازو سامان تھا۔ غزوۂ خندق میں پیٹ پر پتھر باندھ کر کس نے خندق کھودی تھی؟۔ محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کے پاس کتنی عددی قوت اور جنگی سازو سامان تھا۔ تاریخِ عالم کا حرف حرف پڑھ لیجئے آپ کو سامانِ حرب اور عددی قوت کے لحاظ سے مسلمان اپنے دشمنوں سے کمتر لیکن جذبۂ ایمانی سے سرشار نظر آئیں گے۔ میرا مطلوب و مقصود یہ ہرگز نہیں کہ ہم جنگی جنوں میں مبتلا ہو جائیں۔ میں تو فقط اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو غیرت بریگیڈ کا طعنہ دینے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ہندوستان کا انچ انچ ہمارے ایٹمی میزائلوں کی زد میں ہے۔
اَس کے باوجود بھی ہم دِلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے جنوں میں ہرگز مبتلاء نہیں لیکن کسی کو یہ بھی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ لاہور کے جمخانہ میں جام لنڈھانے کے جنوں میں مبتلاء ہو۔ کشمیر کو قائدِ اعظم نے اپنی شہ رگ قرار دیا تھا اور یہ آج بھی ہماری شہ رگ ہی ہے جہاں 6 لاکھ کشمیری جان دے چکے، 1 ہزار لا پتہ، سات ہزار ایسی خفیہ قبروں کی نشاندہی ہوئی جہاں ایک ایک قبر میں کئی کئی شہید دفن، عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں اور عقوبت خانوں میں مظلوموں پر وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے۔
اِس کے باوجود بھی جب ہمارے وزیرِ اعظم مسلۂ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات کرتے ہیں تو من موہن جی کی تلملاہٹ اُنہیں بوکھلاہٹ کے اُس مقام تک لے جاتی ہے کہ وہ ”دیہاتی بُڑھیا” کی طرح اوباما کے سامنے شکایات کا دفتر کھول بیٹھتے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب جب از راہِ تفنن یہی بات کہتے ہیں تو مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہاتھوں کو لہرا لہرا کر نریندر مودی وائی تبائی بکنا شروع کر دیتے ہیں۔ میاں صاحب کا انٹرویو کرنے والے انڈین صحافی نے ٹویٹر پر یہ پیغام دیا کہ میاں صاحب نے ایسی کوئی بات نہیں۔
کہی جس میں من موہن سنگھ کی تضحیک کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ اِس کے باوجود بھی جنگی جنوں میں مبتلاء بی جے پی اور انڈین پریس اور الیکٹرانک میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ ہمارے امن کی فاختائیں اُڑانے والے تجزیہ نگاریہ کہتے ہیں کہ امن اور شانتی سے پاکستان کو اربوں ڈالر سالانہ کا فائدہ ہو گا اور بھوک اور افلاس کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔ بجا لیکن اگر پاکستان کی مجموعی آبادی سے چار گنا سے بھی زیادہ (اسّی کروڑ) خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ہندوستانی عوام کا حکومتِ ہند کو مطلق احساس نہیں تو ہم کیوں امن کی آشا کے لیے مرے جا رہے ہیں۔
Mian Nawaz Sharif
میاں نواز شریف صاحب اور من موہن سنگھ صاحب کی ملاقات ناشتے پر طے تھی لیکن میاں صاحب اپنے ہوٹل سے ناشتہ کرکے نکلے اور من موہن جی سے ایک گھنٹہ پندرہ منٹ پر محیط ملاقات کی جس میں تمام متنازع مسائل پر بات ہوئی لیکن اسے محض ایک تعارفی تقریب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ بھارت میں الیکشن کی آمد آمد ہے اور تمام تر سرویز کے مطابق بی جے پی کو کانگرس پر واضح برتری حاصل ہے اِس لیے اِس ملاقات کو مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش سے زیادہ وزن نہیں دیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی کا واویلا بھی الیکشن کیمپین کا ہی حصّہ ہے۔
دراصل انڈیا میں ہمیشہ ”کرش پاکستان” الیکشن کا مرغوب ترین نعرہ رہا ہے جبکہ پاکستان میں ”کرش انڈیا” کانعرہ لگانے والوں کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف انڈیا ہی ہمہ وقت جنگی جنوں میں مبتلاء نظرآتا ہے جبکہ اکابرینِ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کو افضل گردانا۔ ہم تو اتنے محتاط ہیں کہ ”را” کی بلوچستان میں واضح در اندازی” کے باوجود احتجاج تک نہیں کرتے جبکہ ہندوستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی میں حکومتِ ہند کو پاکستان ہی کا ہاتھ نظر آتا ہے۔
انڈین وزیرِ خارجہ سلیمان خورشید نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں اپنے دِل کی بھڑاس نکالی۔ اللہ بھلا کرے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد کا جنہوں نے سلیمان خورشید کے الزامات کا مُنہ توڑ جواب دیا اور کھری کھری سنائیں۔ جنابِ میاں نواز شریف کا اقوامِ متحدہ میں خطاب عوامی امنگوں کا آئینہ دار تھا۔ اُنہوں نے دھیمے مگر پُر وقار لہجے میں وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو ایک آزاد و خود مختار ایٹمی قوت کے سربراہ کو زیبا تھا۔ اُنہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ڈرون حملوں پر اپنا موقف واضح کیا اور اقوامِ متحدہ کو بھی یہ کہہ کر شرم دلائی کہ سات دہائیوں سے کشمیر کا مسلہ اقوامِ متحدہ میں گل سڑ رہا ہے لیکن اسے آج تک لائقِ اعتناء نہیں سمجھا گیا۔
وزیرِ اعظم کے خطاب سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ یہ ادراک کر چکے ہیں کہ اقوامِ عالم میں نئی صف بندی ہونے کو ہے جس میں انڈیا، افغانستان اور امریکہ ایک طرف اور پاکستان، ایران، چین اور روس دوسری طرف کھڑے نظر آنے کے واضح اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ نیویارک میں امریکی، افغانی اور انڈین اکابرین کی بار بار ملاقاتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ انڈیا کے سپرد کرکے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو فراموش کرنا چاہتا ہے۔ میاں صاحب نے بھی وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھا لنے کے فوری بعد چین کا دورہ کرکے ”عالمی غنڈے” امریکہ کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ ”ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو۔ تحریر : پروفیسر مظہر