ہمارے یہاں رواں سال مئی کے گرم موسم میں جہاں گیارہ مئی کے ہونے والے عام انتخابات کی انتخابی مہم جوئی نے سیاست کو گرمائے رکھا تو وہیں، سیاسی بازگروں کو بھی یہ سوچنے اور لائحہ عمل تیار کرنے پر تیار کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد قوم کی گرم مزاجی اور عدم برداشت کا امتحان کس طرح لیا جائے اور اِس میں کس طرح اضافہ کیا جائے آج اپنی اِس سوچ پر کاربند حکمران اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں اور قوم کی گرم مزاجی اور اِس کی عدم برداشت کا امتحان بھی مہنگائی کے طوفان برپا کرکے لینے میں مصروف ہیں اگرچہ آج جب میں اپنا یہ کالم رقم کر رہا ہوں، اکتوبر کا پہلا ہفتہ شروع ہو چکا ہے اور اِن لمحات میں موسمِ گرما کی جاتی ہوئی گرمی کے انتہائی گرم ترین دن چل رہے ہیں، کسانوں کے لئے اکتوبر کی یہ گرمی دھان کی پکائی کے لئے مفید ہے تو وہیں حکمرانوں کے لئے بھی یہ گرم ترین دن قوم کی گرم مزاجی اور اِس کے عدم برداشت کے عنصر کو مزید بھڑکانے اور اِن میں آگ بھرنے کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور اِن گرم دنوں میں نواز حکومت نے اپنے ایک سو پچیس دن کس طرح عوام کو تنگ اور پریشان کرکے پورے کئے ہیں آج یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
اگرچہ اِس میں آج کوئی شک نہیں ہے کہ قوم نے گیارہ مئی کے عام انتخابات میں جن بے شمار چاہتوں، محبتوں اور اُمیدوں کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اِس کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی شخصیت کو ووٹ دے کر اِنہیں جس خلوص سے اقتدار کی مسند پر بیٹھایا تھا آج نہ تو نواز شریف اُس طرح عوام کے معیار پر پورا اُتر سکے ہیں اور نہ اِن کی حکومت ہی نے مسائل اور پریشانیوں کے ہاتھوں گھائل ہونے والے عوام کے جسموں پر لگی چوٹوں اور اِن چوٹوں سے اُٹھنے والی ٹیسوں کی پرواہ کرتے ہوئے اِنہیں ریلیف دینے کے خاطر کسی بھی معاملے کا حل نکال کر اِن کے جسموں پر لگے زخموں پر ذرا سا مرہم رکھا ہے آج اُلٹا نواز حکومت نے عوام کے ناجانے کس کئے کا بدلہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے لیا ہے کہ اِس نے عوام پر مہنگائی کی درندگی اور سفاکیت کوبے لگام چھوڑ کرجو مثال قائم کر دی ہے۔
جو 66 سالہ مُلکی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے یعنی نواز حکومت نے اپنے صرف ایک سو پچیس دنوں ہی میں قوم کی کمر پر ایسا چھرا گھونپا ہے کہ قوم کا وجود جگہہ جگہہ سے زخموں سے چور چور ہو گیا ہے، اور اِس بھی سونے پہ سُہاگہ یہ کہ پہلے سے بے لگام اورر دندہ صفت مہنگائی کے ہاتھوں لب دم عوام سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عوام کو مُلکی معیشت کو سہارا دینے اور حکمرانوں کی عیاشیوں کے خاطر کڑوی گولی نگلنی ہوگی، اِن کی اِس قربانی سے جہاں مُلکی معیشت کسی حد تک سنورے گی تو وہیں حکمرانوں کے دامن بھی خوشیوں سے بھر جائیں گے، سو مُلکی معیشت اور قومی خزانے سے حکمرانوں کی عیاشیوں کے لئے پاکستانی قوم کو کڑوی گولیاں نگل کر ضرور قربانی دینی ہوگی جس کی ابتداء بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ ہونے والے اضافے سے کر دی گئی ہے اور آئندہ بھی ایسے یا اِس سے بھی زیادہ اضافوں کے لئے قوم کو تیار رہنا پڑے گا، کیوں کہ قوم اِس حوالے سے جتنی بھی قربانی دے گی اِس سے قومی خزانے بھرے گا اور حکمران خوشحال ہوں گے۔
Nawaz Sharif
جبکہ یہاں آمر انتہائی افسوسناک ہے کہ حالیہ دنوں میں نواز حکومت نے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کس طرح اضافہ کیا اِس کے اِس فعل سے اِس کے آئندہ کے عوام دُشمن اقدامات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ حکومت ایک دو سال قائم رہ گئی تو یہ عوام دُشمنی میں کس حد تک جا سکتی ہے، اَب اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے، ماضی میں زدراری حکومت پر لعن تعن کرنی والی یہی ن لیگ تھی مگر آج جب یہ خود اقتدار پر قابض ہو گئی ہے تو آج اِسے بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ یہ اقتدار میں آنے کے بعد خود کیا کر رہی ہے، آج اِس کا اندازہ اِسے ہو یا نہ ہو مگر اِس کے مظالم عوام جانتے ہیں جو اِس کی زد میں آ رہے ہیں اور جب تک یہ حکومت رہے گی یہ اِس کے مظالم سہتی رہے گی، کیوں کہ یہ پاگل عوام ہی تو ہے جس نے اِس کی سبز باتوں اور سُنہیرے خوابوں میں آکر اِسے اپنے ووٹوں سے اقتدار کی مسندِ پر بیٹھایا ہے، اَب یہ اپنے کئے کو خود سزا بھگتے، آج عوام کے ہاتھ میں اللہ سے سوائے اِس دعا کے کچھ نہیں ہے کہ”اللہ قوم کو نواز حکومت اور وزیر خزانہ کے ظالمانہ اقدامات سے بچائے”۔ اور قوم اِن ظالم حکمرانوں سے نجات دلانے کے لئے ایک طرف اللہ سے دعائیں کر رہے ہے تو دوسری طرف فوج کے کسی اچھے اقدام کی جانب سے اُمیدوں سے دیکھ رہی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نواز حکومت قومی خزانہ بھرنے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی آڑ میں قومی اداروں کی بے لگام نج کاری سے پاکستانی عوام کو ایسٹ انڈیا کی کمپنییوں کی طرز پر دوبارہ غلام بنانا چاہ رہی ہے، موجودہ حالات میں اِس کے عزائم سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اِس کے پاس قومی اداروں کو بیچنے اور اغیار کے ناپاک قدم پاکستان میں جمانے اور قوم کی 66 سالہ آزادی کو سلف کر کے اِسے پھر سے غیروں کا غلام بنانے کے سوا اور کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے، اِس کا اندازہ اِس سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری نے پی آئی اے، اسٹیل ملز، یوبی ایل اور پاور کمپنیوں سمیت 31 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرکے مُلک اور قوم کو ایسٹ انڈیا کمپنیوں کی طرز پر غلام بنانے کا جو تہیہ کر رکھا ہے اِس سے اِس کے آئندہ کے منصوبوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
اَب اِس کے اِن عزائم کے آگے بند باندھنے کے لئے ساری پاکستانی قوم اور ہر محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متحد ہونا ہو گا اور کاروباری ذہانت رکھنے والے اپنے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور اِن کے بیوپار وزراء سے پوچھنا ہوگا اور اِن کے قومی اداروں کی نجی کاری کے لئے تیزی سے اُٹھتے قدم روکنے اور ہر اُس اقدام کے آگے بند باندھنا ہو گا جس سے مُلک اور قوم کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے کسی بھی قومی ادارے کو نجی تحویل میں دینے سے قبل حکومت کو اِس میں خود سے ایسی اصطلاحات کرنی چاہئے تھیں کہ اجن سے یہ ادارہ کارآمد ہو جائے اور اگر اِس کے بعد بھی اِس میں کوئی بہتری نظرنہ آتی تو پھر کوئی نجی کاری کے لئے ایسا قدم اٹھاتی جس کا مُلک اور قوم کو فائدہ پہنچتا نا کہ آج نواز حکومت جذبات میں بغیر سوچے سمجھے ایسے قدم اُٹھائے کہ جس کا پچھتاوا ساری زندگی آنے والی نسلوں کو اُٹھانا پڑے۔
Power
آج قوم اور حکومت کے پچھتاوے کی ایک مثال کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ہے، اِس لئے کہ جب یہ ادارہ قومی تحویل میں تھا تو اِس کی سو سالہ کارکردگی بتاتی ہے کہ اِس ادارے نے شہرِ قائد کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائے رکھا اور اپنے وسائل اور وفاق کی معاونت سے اتنا کچھ کیا کہ شہرِ کراچی ساری دنیا میں روشنیوں کے لقب سے پہچانا جانے لگا مگر پچھلے آٹھ نو سالوں میں جب سے یہ ادارہ نجی تحویل میں گیا ہے اِس کی کارکردگی صفر سے بھی بدتر ہو گئی ہے، اِس کی انتظامیہ نے اپنی نااہلی اور زیادہ کمانے کے چکر میں اِس شہر قائد کو اندھیروں کا شہر بنا دیا ہے، اور شہر کراچی سے کا روشنیوں کے شہر کا لقب چھین کر اِسے اُس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آج جس میں مسلسل رہنے والے اندھیروں کی وجہ سے وحشت اور خوف محسوس ہونے لگاہے، اور وزیراعظم میاں نواز شریف جی..!اِس پر ظلم یہ کہ مُلکی معیشت کو سہارا دینے اور مُلک کو سب سے زیادہ کما کر دینے والے اِس شہر کراچی کی تباہی اور اندھیروں کا آپ کو ذرا بھی احساس نہیں ہے۔
آپ نے کے ای ایس سی کی نااہل انتظامیہ کے کرتوتوں کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی کہ آپ یہ ہی پوچھ لیتے کہ تم لوگوں نے شہر کراچی کو کیوں اندھیروں میں دھکیل دیا ہے..؟ اور اِس بنیاد پر اِس سے اِس کی ذمہ داری واپس لینے کا ہی کوئی حکم صادر فرمایا دیتے کہ کیوں اِس کی انتظامیہ معاہدے کے مطابق ادارے کے اپنی تحویل میں لینے کے بعد اپنی صلاحیتوں سے ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کر پائی ہے..؟ کیوں اِدھر اُدھر (پنجاب اور دیگر ذرائع) سے بجلی مانگ کا اپنی دُکان چمکائی جارہی ہے …؟ اور کراچی کے(گھریلو اور کمرشل)صارفین کو چوری اور بوگس بلنگ کی مد میں زائد بلنگ سے ماہانہ اربوں اور کھربوں کما رہی ہے …؟ مگر ادارے پر ایک پائی بھی خرچ نہیں کر رہی ہے…؟ اِن تمام باتوں کے باوجود بھی آپ نے اور آپ کی حکومت کے وفاقی وزراء پانی و بجلی اور خزانہ نے کراچی کو پنجاب سے ملنی والی 650 میگاواٹ بجلی بھی بند کرکے محکمہ کے ای ایس سی کے کراچی کو اندھیروں میں ڈبونے والے عزائم کی تکمیل میں اپنا بھی حصہ ڈال دیا ہے۔
Allha
یہ ٹھیک ہے کہ پنجاب سے کراچی کو 650 میگا واٹ بجلی دی جارہی تھی، اِس سے کراچی شہر روشن تھا اور اِس کے کارخانے اور صنعتیں چل رہیں تھیں، مگر وزیراعظم نواز شریف جی..! یہ عمل کوئی نیا تو نہیں تھا، یہ تو پرانا ہی طریقہ کار تھا جو ایک معاہدے کے تحت ہوتا رہا، مگر آج ایک ایسے وقت میں کہ جب محکمہ کے ای ایسی سی کی نااہل اور کمرشل ذہانت کی نجی انتظامیہ پہلے ہی شہر قائد کے لئے جنجال بنی ہوئی ہے اور اِس نے اِس روشنیوں کے شہر کو اندھیروں میں دھکیل کر مُلک کے اِس معاشی حب کا ستیاناس کر رکھا ہے اِس پر اُوپر سے آپ کی حکومت نے کراچی سے کسی کنیہ پروری کی بنیاد پر اِس کی 650 میگاواٹ بجلی بھی بند کر دی ہے جس سے شہر کراچی میں سیاہ ترین اندھیرے لمبے ہو چکے ہیں اور اِس شہر کی صنعتوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھویں بند ہو کر مُلکی معیشت کے پہیوں کو بھی روک رہے ہیں۔ سو اِس بنیاد پر وزیراعظم نواز شریف جی…!فوری نوٹس لیں اور کراچی کو پنجاب سے ملنی والی 650 میگاواٹ بجلی جو بند کر دی گئی ہے یا کرنے کا ارادہ ہے۔
اِ سے بند نہ کریں اور کسی بھی ادارے کو محض جذبات میں آکر نجی تحویل میں نہ دیں کیوں کہ ہر نجی تحویل کی انتظامیہ بعد میں ایساہی کرے گی آج جیساکہ محکمہ کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ کررہی ہے، کیوں کہ حکومت جب بھی کسی معاملے میںاِسے بلاتی ہے تو اِس کی انتظامیہ اِسے لٹ کر یہ جواب دیتی ہے کہ ہم حکومت کو کسی بات کا جواب دینے کے اہل نہیں ہیں، ہم سے کسی بھی کام کے بارے میں ہمارے مالکان پوچھ سکتے ہیں، حکومت نہیں اور پھریوں اِس کے اِس جواب کے بعد حکومت منہ لٹکا کر اور تلملا کر رہ جاتی ہے، قبل اِس کے کہ قومی اداروں کو نجی تحویل میں دیئے جانے کے بعد اِن کی انتظامیہ کا رویہ بھی حکومت کے ساتھ ایسا ہو جائے جیسا کہ محکمہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کا ہے نواز حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی اداروں کو محض قومی خزانہ بھرنے اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے نجی تحویل میں نہ دے، اِس کام کے لئے اپنے اور دیگر وسائل بروئے کار لائے، اور حکومتی اخراجات اور وزراء و اراکین پارلیمنٹ کو ملنے والی مراعات اور عیاشیوں کو کنٹرول کرے تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے اور اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو پھر پاکستانی قوم اللہ سے صرف یہ ہی دعا کرے گی کہ ” اللہ قوم کو نواز حکومت کے ظالمانہ اقدامات سے بچائے”۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com