ہم نے گذشتہ حکومتمیں جس ازیت ناک صورتحال دیکھی ہے شائد ہی ایسی حکومت کا ہمیں کمان بھی ہو یہان میں ائک چھوٹا سا قصہ آپ کو سناتا چلوں ایک بستی میں چوری کا ایک انوکھا واقع پیش آتا تھا چور قبر کھوڈ کر مردے کا کفن اتار لیتا وہ چور ایک دن مر گیا لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو اب تو جان چھوٹ گئی دوسری واردار ت پھر سے شروع ہو گئی وہ ایسے کہ چور قبر کھودتا کفن اتار کر مردے کے پیٹ میں کلہ ٹھونک دیتا لوگوں کو تشویش ہوئی اور سب کہنے لگے یا اس سے بہتر تو وہی چور تھا جو کم از کم مردے کی بتے حرمتی تو نہیں کرتا تھا آج ہماری کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہے میں گذشتہ روز بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی تقرار سن رہا تھا ہمارے محترم وزیر اطلاعات پرویز رشید فرما رہے تھے کہ عوام کو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کڑوی گول؛ی نگلنا ہوگی جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو دو ماہ مکمل ہوئے تھے تو ان کے وزیر نے بھی اسی طرح کا جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہو گی۔
پھر انہوں نے بھی عوام کو اتنی کڑوی گولیاں دیں کہ ہم بے حس ہو گئے اب ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ میٹھی گولی کون سی ہے اور کڑوی گولی کون سیوہ تو مر گئے اب موجودہ حکمرانوں کو لیں جن کو یہ علم نہیں کہ اس کڑوی گولی کا اثر غریب عوام پر کیا پڑے گا دس ہزار ماہانہ کمانے والا اپنی گزر اوقات کیسے کرے گا بجلی پیٹولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کیا ہوتا ہے شائد انہیں علم نہیں مسلم لیگ ن کی حکومت کو مسند اقتدار تک لانے میں عوام کی کتنی توقعات تھیں ان کا خیال تھا کہمیاں صاحب اقتدار میں آگئے تو ہمیں تمام مشکلات سے نجات مل جائتے گی مہنگائی کا جن وہ قابو کر لیں گے پیپلز پارٹی کے بتائے ہوئے نسخے میاں برادران نے بھی عوام پر آزمانے شروع کر دئے ہیں اب تو یوں لگتا ہے کہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے موجودہ حکمران یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم نے ان کے تمام ریکارڈ توڑنے ہیں اور یہ لوگ اس میں کامیابی کے لئے تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میرے ذہین میں ایک بات آئی ہے کہ کسی ملک میں قحط پڑ گیا لوگ بادشاہ سلامت کے پاس آئے اور شکایت کی کہ عوام کو روٹی نہیں مل رہی لوگ بھوک سے مر رہے ہیں بادشاپ سلامت نے ارشاد فرمایا کہ لوگ تو پاگل ہیں اگر انہیں روٹی ملتی تو وہ بسکٹ ہی کھا کر گزارہ کر لیں اب باشاہ سلامت کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جب روٹی میسر نہیں تو بسکٹ کہاں سے آئیں گے بحرحال اسے کیا خبر تھی کہ غریبی کیا ہوتی ہے انہوں نے تو آنکھ ہی کھولی تھی تو بنگلے اور سونے کے چمچوں میں انہیں کیا پتہ کہ غربت میں کیا کچھ ہوتا ہے ہمارے اس وقت برسراقتدار وزراء میں سے ایک بھی ایسا دیکھا دو جس کو علم ہو کہ غربت اور غریبی کیا چیز ہے ہمارا حال تو کچھ اس طرح ہے کہمیں کل ایک فلم دیکھ رہا تھا کہ ایک شہر جو یقینا پاکستان کا شہر تھا وہاں پکوان پک رہے تھے ایک نگ دھڑنگ بچہ شیشے میں سجی جلیبی اور دیگر چیزوں کو حسرت سے دیکھ رہا تھا۔
Petrol
خریدار جو بھی آتا اس بچے کو دھکیل کر چیزیں خرید کر چلا جاتا کافی دیر وہ بچہ بھی پھرتا رہا اور ان چیزوں کے حصول کے لئے کوشش کرتا رہا مگر زمانے کے ظالم تھپڑ اسے لگتے رہے بلآخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا اسے لمحے ایک شخص کے ہاتھ سے جلیبی گر گئی کئی پائوں اس جلیبی کے ٹکڑے کو مسلتے مسلتے رہ گئے وہ بچہ بھاگ کر پہنچا اور اس جلیبی کے ٹکڑے کو اتھایا پاس پڑے اخبار کے ٹکڑے میں اسے لپیٹا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ بچہ اب اس جلیبی کے ٹکڑے کو کھا کر اپنے ارمان تو پورے کر ہی لے گا مگر اس بچے نے بھاگنا شروع کر دیا آکر وہ ایک تنگ محلے کی تنگ گلی میں پہنچ کر ایک دروازہ کھولتا ہے تو اس کا چھوٹا بھائی بیٹھا ہے اس نے جلیبی کا ٹکڑا بھای کو کھلانا شروع کیا تو وہ منظر ایسا تھا کہ کوئی آنکھ ایسی نہ ہو گی جس میں آنسو نہ آئیں چھوٹا بچہ اس کے آنسو پونچھ کو ایک ٹکڑا اس کے منہ میں ڈالتا دونوں بھائیوں کا ایک دوسرے کے آنسو پونچھ کر جلیبی کھلانے کا سین دل کو تڑپا کر رکھ گیا۔
اب جن لوگوں کی کمائی دس ہزار ماہانہ ہے اور انہوں نے اپنی سفید پوشی بھی قائم رکھی ہوئی ہے 5 روپے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد جب اسے روٹی دس روپے کی ملنا شروع ہوگی چائے بیس روپے کی ملنا شروع ہوگی ہمارے خادم اعلیٰ حکمران اس مہنگائی کو روکنے کے اقدامات بھی نہیں کریں گے تو عوام کی حالت اسی بچے جیسی ہونے والی ہے کیونکہ ہمیں عوام کی نہیں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہے ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ کو ئی لیڈر بھی ایسا نہیں جسے عوام کا درد ہو اور لیڈروں کو بھی پتہ ہے کہ عوام تماش بین ہیں لڑئی مار کٹائی کو ایک تماشہ سمجھتے ہیں ہمین ظلم زیادتی پر سنجیدہ ہونا چاہیے مگر ہم انہیں ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیںوہ ہمیں بھی جس طرھ چاہتے ہیں استعمال کرتے ہیں۔
جب ہم ان کا مقصد پورا کر دیتے ہیں تو وہ پھر ہمارے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں میں نے اپنے گذشتہ کالم میں بھی کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا انجام دیکھ کر موجودہ حکمران اگر عوام کو کڑوی گولیاں دیتے رہے تو پانچ سال بعد عوام جو گولی انہیں دیں گے۔ وہ پیپلز پارٹی کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کی طرح سیاسی دنیا سے آئوٹ ہو جائیں گے حکمرانوں کے پاس اب بھی قوت ہے کہ وہ عوام کو کڑوی گولیاں نہ کھلائیں بلکہ ملک سے مہگائی کے خاتمے کے اقدامات کریں امریکہ کی خوشنودی کو چھوڑ کر پاکستانی عوام کے بارے میں سوچیں کہ وہ کیسے سسک سسک کر مر رہے ہیں۔