پاکستان کو اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دہشت گردوں نے یرغمال بنا رکھا ہے محب وطن اور محنتی پاکستانی شہری ان کے ظلم کے سامنے بے بس ہو چکا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت ملک میں جاری دہشت گردی کو روکنے میں بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے متعدد بار حکومت اور دہشت گردوں کے درمیان مذاکرات کا کھیل کھیلا گیا مگر اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور آئے روز دہشت گردی کی ان کاروائیوں میں عوام ان کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہی ہے ایک طرف دہشت گرد ہیں جو عوام کی جان سے کھیل رہے ہیں تو دوسری طرف حکومتی ادارے ہیں جو عوام کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں خاص کر پولیس کے شیر جوان جو اپنوں کو ہی دن رات لوٹنے میں مصروف ہیں۔
کراچی مچھر کالونی کے رہائیشیوں کے ساتھ اس وقت جو سلوک کیا جارہا ہے وہ بھی دہشت گردی ہی کے زمرے میں آتا ہے جس کا ذکر میں آخر میں کرونگا مگر سب سے پہلے حکومت اور طالبان کے مذاکرات کا پس منظر بتاتا چلوں کہ نائن الیون کے بعد سے حکومت اور طالبان کے درمیان درجن بار معاہدوں کیلئے مذاکرات ہوئے ایک آدھ بار معاہدے طے پائے تاہم نہ تو کبھی کوئی بات چیت اور نہ ہی معاہدہ سرے چڑھ سکا حکومت اور طالبان کے درمیان جونہی امن کیلئے بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہوئی یا کوئی معاملہ طے پائے یا تو کسی طالبان رہنما کو یا پھر کسی اعلیٰ حکومتی یا عسکری شخصیت کو نشانہ بنا کر ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا جاتا حکومت اور طالبان کے درمیان امن کیلئے ہونے والی بات چیت کو ہمیشہ ایک غیر ملکی طاقت نے ڈرون حملوں کے ذریعے ناکام بنایا اسی غیر ملکی طاقت کی مدد سے تحریک طالبان سوات نے اپر دیر میں دہشت گردی کی کارروائی کرکے پاک فوج کے میجر جنرل اور دیگر کو سیٹلائٹ کی مدد سے نشانہ بنایا کر شہید کیا۔
Baitullah Mehsud
نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے خطے میں شدید اشتعال پھیل گیا جس کے بعد افغانستان سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں نفرت انگیز تحریک پیدا ہوئی۔ حکومت پاکستان نے امریکی دبائو پر اس استعال کو روکنے کی کوشش کی تو دو طرفہ معاملات آپس میں ٹکرائو کا سبب بنے جس پر کبھی طاقت کے ذریے تو کبھی مذاکرات و معاہدات کے ذریعے امن قائم کر نے کی کوشش کی گئی۔حکومت پاکستان نے پہلا معاہدہ بیت اللہ محسود کے ساتھ 2 فروری 2005 کو سروارغہ معاہدہ کے نام سے کیا۔
2007میں نفاذ شریعت کے صوفی محمد اور مولوی فضل کے ساتھ معاہدہ طے پایا لیکن مولوی فضل کی جانب سے پاک فوج کے خلاف منفی سر گرمیوں کے باعث معاہدہ ٹوٹ گیا۔ 21 جون 2008 کو منگل باغ اور متعلقہ آفریدی قبائل کے ساتھ امن کی کوششیں کی گئی ہیں۔5ستمبر 2008 میں شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں سے امن مذاکرات کیے گئے۔ 2009 میں پھر معاہدے کیے گئے جنہیں 6 ماہ بعد ہی طالبان نے فورسز کے انخلاء نہ ہو نے پر توڑ دیا۔ مئی2011 حافظ گل محمد گروپ سے امن معاہدات سے متعلق بات چیت ہوئی تاہم کیے گئے معاہدے جلد ہی ٹوٹ گئے۔ اسی طرح سوات اور قبائلی علاقوں میں دیگر کیے گئے معاہدے بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے گزشتہ دنوں اے پی سی میں طالبان سے مذاکرات کے لیے مکمل حمایت کی گئی تو امن مذاکرات شروع ہو نے سے قبل ہی پشاور میں ایک ہفتے میں 3 دھماکوں میں 140 سے زائد افراد کو شہید کر کے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم حکومت اور طالبان دونوں فریقوں کو اب دوست اور دشمن کی پہچان کر کے امن کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
Karachi
میں اوپر کراچی میں مچھر کالونی کے باسیوں کا ذکر کیا تھا جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لوٹ مار کی انتہا کر رکھی ہے ویسے تو پوار ملک ہی انہوں نے یرغمال بنایا ہو ا ہے گلی محلوں سے لیکر بڑے شہروں تک آپ کو ٹریفک پولیس والا اگر کسی کا چلان کرتا ہوا نظر آئے گا تو وہ بیچارہ موٹر سائیکل سوار ہی ہو گا کیونکہ اسکا تعلق بھی ان 75 فیصد پاکستانیوں کے ساتھ ہیں جو اس ملک کو ٹیکس دیتے ہیں۔
لوٹ مار نہیں کرتے اور سب سے بڑھ کر نہ وہ سیاستدان ہیں اور نہ ہی وہ اعلی افسر اسی لیے ہر چوک پر ٹریفک پولیس والے انہیں روک کر اپنی تنخواہوں کے پیسے ان سے وصول کر رہے ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی میں آپ کو مچھر کالونی کراچی کا بھی ایک واقعہ سناتا ہوں جو پورے پاکستان کے غریب علاقوں کی مثال ہے مچھر کالونی کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ وہاں پر ہمارے بنگالی بھائی موجود ہیں اور اس کالونی میں تقریبا 5 لاکھ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کی ہر بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں جبکہ اپنی محنت مزدوری سے کمائی ہوئی بچوں کی روزی وہاں کے بھکاری پولیس کے شیر جوانوں کو دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
جب بھی کسی پولیس والے کو پیسے کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ قصائی کی طرف مچھر کالونی کے ڈربے میں ہاتھ ڈالتا ہے جو مرغی سامنے آئی اس پر ہی چھری چلادی اور جو بیچارہ سارا دن محنت مزدوری کرنے کے بعد اپنے بچوں کا رزق لے کر گھر جا رہا ہوتا ہے راستے میں ہی مچھر کی طرح مسل دیا جاتا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پورے ملک کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے جہاں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ مال خاص کر ہمارے دیہاتی تھانوں میں میں پولیس کے جوان فرعون بن کر حکمرانی کرتے ہیں ان سے بڑھ کر بھی ایک مخلوق ہے جو اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھتے ہیں وہ ہیں جیلوں کے انچارج جو اپنے سے بڑے کے تو تلوے چاٹتے ہیں مگر باقی سب سے انکا بدلہ لیتے ہیں اور ایسے ہی ہمارے تمام سرکاری ملازمین نے پاکستان کو مچھر کالونی بنا کر شہریوں کو مچھر سمجھ رکھا ہے انکے بارے میں تفصیل پھر کبھی سہی۔