ایک انٹرویو میں طالبان کمانڈر نے اس بات کا انکشاف کیا کہ طالبان نے افغانستان میں تعینات برطانوی شہزادے ہیری کو قتل کرنے کے کئی منصوبے بنائے۔پاکستانی طالبان کا افغان طالبان کے نکتہ نظر سے اختلاف ہے، پاکستانی طالبان القاعدہ کے زیادہ قریب ہیں۔
اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان دوبارہ افغانستان پر قبضہ کرلیں گے۔ طالبان کمانڈر نے ایک خفیہ انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے شہزادے کا سیکورٹی حصار توڑنے کی کئی بار کوشش کی لیکن وہ اپنے منصوبے میں ناکام رہے۔
پشاور کے قریب ایک سخت حفاظتی کمپاونڈ سے طالبان کمانڈر قاری نصر اللہ نے بتایا کہ برطانوی شہزادے نے جیسے ہی افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھا، طالبان کے ہدف میں وہ پہلے نمبر پر تھا۔ عسکریت پسند اسے قتل یا پکڑنا چاہتے تھے تا کہ دنیا کو ایک صدمے سے دوچار کر دیا جائے۔ انہوں نے شہزادے پر کئی بار نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
طالبان کمانڈر نے کہا کہ برطانیہ کے لئے وہ شہزادہ ہوگا لیکن مجاہدین کے لئے وہ ایک عام فوجی تھا جو امریکیوں کے لئے ہم پر بمباری کر رہا تھا۔ اسے پکڑنے کے لئے کئی منصوبے بنائے مگر اس کی خوش قسمتی کہ وہ بچ نکلا۔
ہیری دو مرتبہ برطانوی افواج کے ساتھ افغان جنگ میں حصہ لے چکے ہیں۔ افغان صوبے کناڑ کے طالبان کمانڈر کے ساتھ پانچ ماہ کی گفت وشنید کے بعد وہ انٹرویو دینے پر راضی ہوئے ۔سنڈے مرر کے ایک صحافی کے 2010 میں طالبان کے ہاتھوں قتل پر قاری نصراللہ نے کہا کہ کئی مغربی صحافیوں نے افغانستان میں طالبان دور حکومت میں عزت و احترام حاصل کیا۔
کچھ تو طالبان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے واپس جانے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ہمارے دور میں وہ قابل احترام تھے ،اب ہم اس بات کی ذمہ داری نہیں لے سکتے کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس سوال پر کہ نیٹو دعوی کرتی ہے کہ زیادہ تر افغان سویلین کی ہلاکتیں طالبان کی وجہ سے ہوئیں اس پر انہوں نے کہا کہ وہ لوگ نشانہ بنے جو نیٹو بیسز کے قریب رہائش پزیر ہیں یا ان کے لئے کام کرتے ہیں۔
نیٹو حملوں سے بھاری تعداد میں بچے اور عورتیں ہلاک ہوئیں، برطانیہ اس پر کیوں خاموش ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبان القاعدہ کے زیادہ قریب ہیں اور ان کے عزائم عالمی سطح پر ہیں لیکن افغان طالبان اپنے ملک پر غیر ملکی فوجوں کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ 2015 میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہ افغانستان میں اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔