کبھی کبھی نظر آنے والوں کے لئے پاکستان میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ” ابے یار تم تو آج کل عید کا چاند ہو گئے ہو” ایسی کہاوتیں کہاں سے آتی ہیں اور ان کہاوتوں کے کہنے والے کون لوگ ہوتے ہیں اس کا پتہ نہیں چلتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کہاوتوں میں بہت دَم ہوتا ہے۔ مگر آج کل ہوتا ایسا ہے کہ لوگ تو ایک دوسرے سے سنگین حالات کی وجہ سے نہیں مل پاتے، سنگین حالات اس لئے کہ نوکری سے آنے کے بعد لوگ گھر میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ ہے ” ڈر اور خوف” لیکن ہاں! مہنگائی آج کل ایک ایسا پودا ہے جسے عوام الناس عید کے چاند کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ مہنگائی کا جن اربابِ حکومت سمیت کسی کے بھی قابو میں نہیں آ رہا اور روزآنہ ہی عوام پر ڈرون اٹیک کی طرح گِر رہا ہے جس سے ہر طبقۂ فکر کے لوگ سخت نالاں ہیں۔
مہنگائی کی پرورش میں کئی وجوہات پنہاں ہیں جس کے ازالے کے لئے تندہی اور خلوص کی ضرورت ہے مگر اتنا وقت ہی اربابِ اقتدار اور اربابِ ادارے کے پاس نہیں ہوتا کہ وہ اس جان لیوا مہنگائی پر کام کر سکیں۔ آج ضرور ہے کھلے دل سے کام کرنے کی، دلوں میں عوام کی طرف سے کدورت رکھ کر کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: سب سے پہلے تو ترے دل سے کدورت نکلے تب کہیں جا کے خاتمۂ مہنگائی کی صورت نکلے ہم نے اپنی ٦٦ ویں آزادی کا جشن تو بہت دھوم دھام سے منا لیا مگر پاکستان کے عوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات اچھے نہیں۔ پاکستان کو قرضے کی بوجھ کھائے جا رہی ہے۔ جیسے جیسے قرضے کی دولت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے بے ایمانی، چوری، دھوکے بازی، فریب کاری، دغا بازی، مکاری، رشوت خوری، حرص و ہوس بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
Inflation
عوام کے لئے نہ تو حکومت اچھی نہ حکمران اچھے نہ ہی عہد ہ دار اچھے۔ سب مل کر عوام کو نوچ رہے ہیں۔ پورے ملک میں ایک اندھی لوٹ چل رہی ہے جس کے ہاتھ جو لگ رہا ہے ٦٦ برسوں سے کھا رہا ہے۔ ہر کام میں چوری، بے ایمانی، ہر چیز میں گول مال، ہر معاملے میں رشوت خوری، کمیشن خوری چل رہی ہے۔ قدرتی آفات پر امدادی کاموں کے لئے رقم آتی ہے تو حقداروں تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اُڑا لی جاتی ہے۔ فلائی اوور پُل تیار کیا جاتا ہے تو اکثر افتتاح کے دن ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اناج گوداموں میں سڑ رہے ہیں اور عوام مہنگائی سے پریشان ہیں، غریبوں کے لئے جتنے بھی پروگرام کا اعلان کیا جاتا ہے غریبوں تک پہنچتا ہی نہیں۔ اب پھر محترم وزیراعظم صاحب نے کئی ارب روپئے کے پیکج کا اعلان کیا ہے دیکھئے کہ حقداروں تک پہنچتا ہے یا نہیں۔
تعلیم کا حال کیا سنایا جائے کہ اب تو غریب عوام اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف کم اور اجرتی ملازمت کی طرف زیادہ جھکنے پر مجبور کر رہے ہیں کیوں غریبی بہت بُری چیز ہے۔ اور بھوک مری سے بچنے کے لئے اُن بچوں کو بھی روزگار کی طرف لگا دیتے ہیں جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہیئے تھی۔کوئی رشوت لیتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو رشوت ہی دے کر چھوٹ بھی جاتا ہے، سیاست کا تو حال یہ ہے کہ اگر پارٹی سے فائدہ نہیں ہو رہا تو پارٹی بدل لی، مطلب یہ کہ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔پڑوسی ملک میں بھی اور عالمی منڈی میں بھی پیٹرول کی قیمت مسلسل گررہی ہے اور ہمارے ملک میں اس پر اضافہ ہو رہا ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ اس وقت پیٹرول کی قیمت پاکستان کی تاریخ کے بلند ترین سطح پر بُراجمان ہے۔
جس سے ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے تو جرم بھی بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں درندے دن دہاڑے خواتین اور معصوم بچیوں کی عزت و آبرو تار تار کر کے انہیں قتل رہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کا اور یہاں کے باشندوں کا کیا انجام ہوگا؟ گلشن کی تباہی کی خاطر، بس ایک ہی اُلّو کافی تھا ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا؟ کئی دہائی سے زائد کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے سیاسی رہنما غریب کی غریبی دور کرنے کے خواب کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ تبھی تو آج بھی غربت ایک اٹل حقیقت کے طور پر پاکستان میں موجود ہے۔ ملک کی اکثریت خود خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، پاکستان میں غربت اور غریب کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ارباب اپنے شہریوں کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
Vote
غریب کی بات کرکے ووٹ لے کر اقتدار کی کُرسی پر بُرا جمان ہونے والے پتہ نہیں کیوں اقتدار کی باگ ڈور ملتے ہیں غریبوں کو بھلا دیتے ہیں۔ ایک طرف غریب تو غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی دو وقت کی روٹی کا حصول دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کا خون چوس کر اپنی تجوری برنے والے بادشاہوں کو بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ غریب ہے تو آپ کی بادشاہت قائم ہے وگرنہ پھر ووٹ کس سے مانگیں گے جناب! اس لئے بہتر تجویز یہی ہے کہ سو فیصد نہ سہی اتنا تو کر ہی دیجئے کہ دوبارہ ووٹ مانگنے کے لئے جب آپ حضرات عوام کے پاس جائیں تو شرمندگی نہ ہو۔ روپے کی گِرتی قیمت، لگاتار ہوتے ہوئے عصمت دری کے واقعات، عوام کے خلاف مسلسل شیطانی کرتوت، مہنگائی سے بدحال عوام، سہولیات کو ترستے غریب عوام، دہشت گردی اور بم دھماکوں میں اپنے پیاروں سے بچھڑتے لوگ، اور انصاف کی ناگفتہ بہ حالت۔ یہ اس وقت ہمارے ملک کا حال ہے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ ملک کی معیشت اس وقت نازک دور سے گزر رہی ہے اور قرضوں پر انحصار کرکے عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غرق کیا جا رہا ہے۔ بے روزگاری اپنے جوبن پر ہے، روزمرہ استعمال کی تمام ہی اشیاء خورد و نوش دگنی سے بھی زیادہ قیمت پر مارکیٹ میں موجود ہے جس کی پہنچ سے غریب کوسوں دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تمام باتیں المیہ کی صورت نہیں تو اور کیا ہے۔ اور سب ہی کو اس دور میں یہ معلوم ہے کہ روپے کی قدر کی کمی سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے گھر سے لے کر بچوں کے اسکول اور ٹرانسپورٹ سبھی ضروریاتِ زندگی پر اثر پڑے گا۔
اناج، دالیں، آتا، گیہوں سبھی مہنگا ہوگا۔ سبزیوں کے دام تو ابھی بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ پیاز کی قیمت تو ہمیشہ ہی انتخاب کا موضوع بنا ہوتا ہے۔ الغرض کہ سبھی کچھ اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ اب حقیقت میں غریب عوام بُری طرح بوکھلا اور بلبلا رہے ہیں۔ اب تو عوام ایک ہی بات کہتی نظر آتی ہے کہ ضروریاتِ زندگی کا مہنگا ہو جانا ان کی زندگی کا مشکل ہو جانا ہوتا ہے۔ میں یہاں پر اختتامِ کلام کرتے ہوئے الطاف ضیائ صاحب کا یہ شعر بھی رقم کرنا چاہوں گا تاکہ اربابِ سُخن و اربابِ قلم اپنا دامن بچا سکیں۔ مطلب یہ کہ سچائی بیاں بھی ہو جائے اور سخنورِ قلم میلا بھی نہ ہو۔