گروی قوموں کی ٹریجڈی

Dollars

Dollars

عالمی برادری میں ایسے خوش نصیب ملکوں اور قوموں کی کمی نہیں جن کے اعلی سرکاری اہلکار، عقیدت مندوں کی طرح حلوائی کی کڑائی کے سائز کا کشکول سرپہ اٹھائے، مالیاتی اداروں کے لنگر خانوں کے سامنے، ڈالروں کے لیے لائن میں لگے اپنے اپنے حصے کے قرضے جاری، یا ری شیڈول ہونے پر لوڈیاں ڈالتے اور ٹھمکے لگاتے نظر آتے ہیں۔ جس خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ ان قرضوں کو وصول کیا جاتا اگر اسی ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ جنم جنم کی پسی ہوئی جنتا پر خرچ بھی کیا جائے تو شاید ولایتی بابوووں کے حضور دست سوال داز کرنے کی اذیت سے یوں بار بار نہ گزرنا پڑے۔ مگر کیا کریں صاحب جب کسی غریب ملک کی لوٹی پھوٹی، کنگال اور لولی لنگڑی معیشت کو سرکلر ڈیٹ جیسا بنا پیندے کا مرض لاحق ہوجائے اور زندہ رہنے کی آخری امید ڈالروں میں ملنے والی بھاری بھر کم بھیک ہو تو وقتی طور پر، قومی غیرت اور خود داری جیسی Luxuries پر مٹی ڈال دینا ہی بہتر ہے۔

ویسے بھی تھوڑی سی خود مختاری کی خاطر معیشت کا جنازہ اس قدر دھوم دھام سے نکلتے ہوئے دیکھنا کسی بھی طرح دانش مندی، دوراندیشی اور گڈ گورنس کے زمرے میں نہیں آتا۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اپنے نام نہاد مسیحاووں کے ہاتھوں بے آبروں ہونے والی تیسری دنیا کی بدحال معیشتوں کو گدا گری کی لت ڈال کر انھیں نفسیاتی طور اپاہج بنانے کا کریڈٹ، آئی ایم، ایف، ورلڈ بنک اور ایشائی ترقیاتی بنک جیسے سودی اداروں کو جاتا ہے جو برے وقتوں میں ان غریبوں ملکوں کے سرپر ایسا ہاتھ رکھتے ہیں اور تب تک اٹھانے کا نام ہی نہیں لیتے جب تک گردشی قرضوں کے بھنور میں گھوم گھوم کر موجودہ کے ساتھ ساتھ ان کی upcoming نسلوں کے بھی چودہ طبق روشن نہ ہو جائیں۔ پچھلی قسط کو محفوظ کرنے کے لیے اگلی قسط اور اگلی کو محفوظ کے لیے اس سے اگلی۔ درمیان میں ستیاناس عوام کا۔ بیڑا غرق معیشت کا۔ اور یہ ان اینڈنگ سرکل آف استحصال اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے۔

چونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اس لیے بھلا ہوں امداد اور قرض کی بھیک پر پلنے والی حکومتوں کا جواپنی خودی ( یہ وہی خودی ہے جس کے بارے میں کہاگیا تھا کہ خودی کر بلند اتنا۔۔۔) کو خطرے میں ڈال کر ان مالیاتی اداروں کی روزی روٹی میں دن دوگنی رات چوگنی برکت کا باعث بننے کے لیے ہمہ تن گوش رہتی ہیں۔ دنیا کے ہیوی ویٹ اور امیر ممالک کی چھتر چھایا تلے پروان چڑھنے والے ان مالیاتی اداروں نے اپنی معاشی دہشت گردی سے لوٹ مار کرنے کا ایک باعزت اور محفوظ بازار گرم کر رکھا ہے۔یہاں مجبوروں سے ایک ڈالر کے بدلے میں تیرہ ڈالر بھٹورے جاتے ہیں یہی وجہ کہ آج ان کے سود کی رقم اصل سے رقم سے کئی سو گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ دنیا کے چوہدری امریکہ بہادر کی چہیتی، آئی ایم ایف کی سیاسی کاروائیوں اور دخل اندازیوں کے تو کیا کہنے۔ جس کی سادہ ادائیں بھی سائلین کے لئے کسی تڑی کم کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔

Economy

Economy

عالمی ساہو کار وں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ضرورت مند جینوئن ہے یا عادت سے مجبور اور نہ ہی ان کے ہاں قرض کی بھیک فی سبیل اللہ بانٹی جاتی ہے۔ ہر وہ حکومت جو صدقے دل سے، اپنے ملک و قوم کو گروی رکھنے کی متمنی ہو اور ان اداروں کی ڈکٹیشن کی ڈگڈگی پر نان سٹاپ ناچنے پر مکمل آمادہ نظر آتی ہو، اس کے خالی کشکول کو ڈالروں سے بھر دیا جاتا ہے۔ بس اپنے دشمن نمامحسنوں کی کڑی شرائط پر عمل کریں اور قرضہ لی جائیں۔ قرض کے نکاح کی شرائط کی رو سے، دوگنے چوگنے بیاج کی وصولی کے ساتھ ساتھ کے یہ ادارے متعلقہ ملک کے خارجی، سیاسی اور معاشی معاملات میں ہر طرح سے ٹانگ اڑانے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ مقروض حکومتوں کو ان اداروں کی رٹی رٹائی پالیسوں کو من وعن عوام کے منہ پر مارنے کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے۔

بحا لیے معیشت کے نام پر ایسی ایسی شرائط اور پالیساں نافذ کروائی جاتی ہیں، جن کے اندر عوام کو تسلی سے ٹارچر کرنے کا پورا پورا سامان پایا جاتا ہو۔ اپنی افلاطونی جاڑنے کے نام پر حکومتوں کو عوام کش اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جاتا اور انکار کی صورت میں ان کا حقہ پانی بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ لہذا جس ملک کے پاس قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوئی اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے اللہ میاں کی گائے بن کو خود کو زبح ہونے کے لیے پیش کرنا ہی پڑتا ہے۔ معیشت بحال ہو نہ ہو مہنگائی کی ہیوی ڈوز سے عوام کی طیبعیت اچھی خاصی بحال ہوتی رہتی ہے۔ مدتیں ہوئی کہ وطن عزیر پاکستان کا شمار بھی تیسری دنیا کے انہی مقرض اور مظلوم ممالک میں کیا جاتا ہے۔ اسے ہماری بدقسمتی کہیں یا ماضی کی حکومتوں کی بددیانتی، آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ چھیاسی ہراز فی کس کے حساب سے مقروض ہے۔ اس کے باوجود ہم مزید مقروض ہونے پر مجبور ہیں۔ لہذا قرض دہندہ کی طرف سے کبھی جی ایس ٹی بڑھانے کا حکم دیا جاتا ہے تو کبھی روپے کی ویلیوکم کرنیکا۔ کبھی سبسڈی ختم کرنے اعلان کرنا پڑتا ہے تو کبھی بجلی کے بے تحاشا نرخ بڑھوا دیئے جاتے ہیں۔

کبھی قومی اثاثوں کو اونے پونے فروخت کرنے فرمائش کی جاتی ہے۔ اور ان سب مطالبات کے بعد بھی جی نہ بھرے تو سیاسی اور خارجی معاملات میں ڈو مور کے مشورے پر عمل کرنے کی نصیحت فرما دی جاتی ہے۔ یہ کیسی بے بسی ہے؟؟؟ حکومت عوام کی ہو اور پالیساں عوام پر ڈرون گرانے والوں کی۔ کیا یہ جمہوریت کی نفی کرنے والا تضاد نہیں؟؟؟ حکومت کی معاشی ٹیم کے منہ میں اپنی زبان دے کر ان کی کارکردگی اور صلاحیتوں کو ان کی اپنی ہی عوام کی نظروں میں سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی حکومتی ٹیم کو اپنی کارکردگی کی فکر ہو تو وہ ان اداروں کو منہ ہی کیوں لگائیں۔ خالی خزانے کی زمینی حقیقت اپنی جگہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آخر ہم سے ایسی ہی شرائط منوانے پر کیوں باضد ہے ہیں ؟؟؟ جن کے نتیجہ میں معیشت اور عوام کی دونوں کی حالت دن بادن پتلی سے پتلی تر ہوتی جاری ہے۔

پاکستان میں ٹیکس چوری کو روکنے، کرپشن پہ قابو پانے، غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے جیسے اقدامات سے بھی تو خزانے کو بھرا جسکتا ہے۔ اسے کے ساتھ مزید آپشز بھی تو تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ آخر سارے گڑوے گھونٹ عوام کے حلق میں ہی گرانا کون سی مصلحت ہے؟؟؟ اگر ہم حقیقی معنوں میں پاکستان کو ایک خوشحال اور خود مختار ملک بنانا چاہتے ہیں تو حکومت، معاشی ماہرین اور عوام سب کو مل کر کسی نہ کسی طرح عالمی ساہو کاروں کے سودی چنگل سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ ہمیں اب اس غلط فمہی سے نکل آنا چاہیے ۔ہم جن کو اپنے مسائل کا حل سمجھے بیٹھے ہیں درحققیت وہ ہی ان کو پیدا کرنے والے ہیں۔ حیرت ہے کہ ہم جن کے سبب بیمار ہیں انہی سے دھرا دھر دوا (قرضے) لے جارہے ہیں تو افاقہ پھر کیسے ہو اور بہتری کیسے آئے۔

Nawaz Ishaq

Nawaz Ishaq

تحریر : نواز اسحاق