زلزلہ اور خدمت انسانیت

Earthquake

Earthquake

چوبیس ستمبر کی شام بلوچستان و سندھ کے علاقے میں آنے والے ہولناک زلزلے سے بلوچستان کے ان علاقوں میں زیادہ نقصان ہوا جہاں آج بھی انسان پتھر اور مٹی سے بنائے گئے گھروں میں بستے ہیں اور پینے کے لئے دور دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے۔ زلزلہ کے بعد بلوچستان کے علاقوں میں قیامت کی سی صورتحال ہے۔ کہیں چھت نہیں ہے تو کہیں روٹی ناپید کہیں بیماریاں پھوٹ رہی ہیں تو کہیں تن کے کپڑوں کا مسئلہ ہے۔ چاروں طرف وحشت رقص کناں ہے اور ایک کے بعد دوسری تباہی آرہی ہے گزشتہ آٹھ دس سالوں سے پاکستان آئے روز نت نئی آزمائشوں سے دو چار ہو رہا ہے۔ 2005 ء کا تباہ کن زلزلہ، سانحہ لال مسجد، سوات اور مالاکنڈ سے 30 لاکھ لوگوں کی نقل مکانی، سینکڑوں کی تعداد میں خودکش حملے، بم دھماکے اور اس کے ساتھ ہی مختلف اوقات میں آنے والے تباہ کن سیلاب، اور پھر بلوچستان میں زلزلوں پہ زلزلے، شاید من حیث القوم ہمارے گناہ اتنے زیادہ ہوگئے تھے کہ ہم پر آفات ارضی و سماوی ٹوٹ پڑیں اور بے سکونی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے ہمارا سکھ چین اور امن برباد ہو چکا ہے۔

ہم مسلسل سانحات کی زد میں ہیں، بلوچستان میں آنے والے زلزلے نے زبردست تباہی مچادی۔ میڈیا کے مطابق آٹھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ بلوچستان کے چھ اضلاع میں تین لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے۔ ہزاروں مکانات زمین بوس ہوگئے، آوران میں 90 فیصد عمارتیں زمین بوس ہوگئیں، مساجد، شہید ہو گئیں، مدارس میں طلباء بھی شہید ہوئے۔ 191 سکول تباہ ہوئے۔ اس قدرتی آفت نے مصائب اور مشکلات میں اضافہ کر دیا زلزلہ متاثرین کو جنہیں کھانے پینے کی اشیاء اور صاف پانی کی کمی کی شدید قلت ہے۔ زلزلہ متاثرین کو اس وقت ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔ نوے فیصد مکانات تباہ ہو جانے کی وجہ سے لوگوں کو ابھی تک رہنے کیلئے کوئی ٹھکانہ میسر نہیں آ رہا بے گھر متاثرین کی بڑی تعداد کھلے آسمان تلے زندگی کے ایام اس امید کے ساتھ گزار رہی ہے کہ شاید کہیں سے آسمان کے علاوہ کوئی چھت مل جائے۔

بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں لوگ دن میں موسم کی سختی جھیلنے پر مجبور ہیں اور رات کھلے آسمان تلے گزار رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں صاف پانی اور خوراک کی کمی بیماریاں پھیلا رہی ہے۔ زلزلہ زدگان کی مشکلات کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ آواران کے قریبی علاقوں میں امداد فراہم کی جارہی ہے لیکن دور دراز کے علاقے اب بھی ہر قسم کی امداد سے محروم ہیں۔ دوسری طرف یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں پورے پاکستان کی عوام اپنے بھائیوں کی دل کھول کر مدد کر رہی ہے پاکستان آرمی کے نوجوان متاثرہ علاقوں میں ریسکیو و ریلیف میں مصروف ہیں تو دوسری طرف آزاد کشمیر و سرحد کے زلزلے میں امدادی سر گرمیوں کے حوالے سے شہرت حاصل کرنیوالی تنظیمیں ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ سر گرم دکھائی دیتی ہیں جن میں جماعة الدعوة کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔

Jamaat Ul Dawa

Jamaat Ul Dawa

جماعة الدعوة کے علاوہ الخدمت فاؤنڈیشن، معمار ٹرسٹ، پنجاب حکومت سمیت مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور ادارے امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں جو نہ صرف ملک بھر میں امدادی کیمپ لگا کر امدادی سامان جمع کر رہے ہیں بلکہ اپنی ٹیمیں وہاں بھیج کر متاثرین کی ہر طرح سے مددکر رہے ہیں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن زلزلہ سے متاثرہ علاقوں آواران، نیابت، چیری مالار، گشکور، لاباج، مالار، ڈل بیری، گمبورو، تیری تیز، زیارت اور مشکے میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔روزانہ کی بنیاد پر متاثرین میں پکا پکایا کھا نا تقسیم کیا جا رہا ہے جبکہ خشک راشن کے بھی پیکٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی ڈاکٹروں و پیرا میڈیکل سٹاف کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں ہزاروں زخمیوں و مریضوں کو طبی امداد فراہم کر چکی ہیں اور لاکھوں روپے کی ادویات بھی فری دے چکے ہیں۔

فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ترجمان سلمان شاہد کے مطابق زلزلہ متاثرہ علاقوں میں مساجد و مدارس، کنویں اور ہینڈ پمپ ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کئے جائیں گے۔ مقامی علماء کرام کی نگرانی میں شہید مساجد کا سروے شروع کر دیا گیا ہے۔ بیوگان کی فہرستیں بھی تیار کی گئی ہیں اور انہیں خصوصی طور پر نقد رقوم، خیمے اور راشن اور دیگر اشیائے ضرور یہ ہنگامی طور پر دی جارہی ہیں تاکہ ان کے معمولات زندگی بحال کئے جا سکیں۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں جماعة الدعوة وہ واحد غیر سرکاری تنظیم ہے جو زلزلہ سے قبل بلوچستان میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہی تھی جن میں پانی کے لئے کنووں کی تعمیر سر فہرست تھا۔ اب بھی جماعة الدعوة کے سینکڑوں رضاکار انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ حالیہ بلوچستان کا زلزلہ کشمیر کے زلزلے سے زیادہ خطرناک تھا۔ متاثرین زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کھانا نہیں چاہیے پینے کا پانی چاہیے۔ کنویں گارا اور مٹی بھر جانے سے قابل استعمال نہیں رہے۔

Dr Abdul Malik Baloch

Dr Abdul Malik Baloch

متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی قلت کیساتھ ساتھ بچوں میں ہیضہ اور اسہال جیسی بیماریاں پھیل چکی ہیں متاثرہ علاقوں میں عارضی پناہ گاہوں پر صاف پانی اور بیت الخلاء کی سخت ضرورت ہے تاکہ بیماریوں کو پھیلنے سے روکا جا سکے، بلوچستان کے علاقے آواران میں آنے والے طاقت ور زلزلے کے باعث دس ہزار بچے اسکول سے محروم ہوگئے ہیں۔ زلزلے کے بعد ہونے والی تباہی کے نتیجے میں 191 اسکول تباہ ہوگئے ہیں۔ 6000 لڑکے اور 4000 لڑکیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا ہے جس کے دوران مٹی کے بنے ہوئے گھر اور ضلع کی حکومتی عمارات بھی منہدم ہو گئی ہیں۔ زلزلے کی وجہ سے آواران، مشکے، لاباچ، جاؤ اور دیگر علاقوں کے 80 سے 90 فیصد حکومتی اسکول متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بچے تعلیم سے مکمل طور پر محروم ہوگئے ہیں جبکہ وہ بے گھر اور صدمے کی حالت میں ہیں۔

شدید متاثرہ صوبے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مشکے کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ 25 ہزار خاندانوں کی بحالی کیلئے عالمی برادری تعاون کرے۔ متاثرین کی امدادی اشیاء بازار میں فروخت ہوئیں تو ملوث افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔ تو دوسری طرف شرپسندوں کی طرف سے امدادی کام سرانجام دینے والے رضاکاروں، پاک فوج کے باہمت نوجوانوں پر حملے بھی جاری ہیں مگر انسانیت کی خدمت کا جذبہ دلوں میں لئے پاک فوج کے جوان ، فلاح انسانیت فائونڈیشن، و دیگر تنظیموں کے رضاکار ریلیف کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں لوگ مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ پاکستان بھر سے انفرادی طور پر بے شمار لوگ جذبہ حب الوطنی کے تحت زلزلہ متاثرہ علاقوں میں جاکر رات دن کام کر رہے ہیں اس قدرتی آفت کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے کونے کونے سے جس طرح اتحاد اور یکجتی کی ایک آواز سنائی دی، اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں قبل ازیں کشمیر اور سرحد میں 8 اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کے بعد پاکستانی قوم دنیا پر یہ ثابت کر چکی ہے کہ وہ کڑی سے کڑی آزمائش سے سرخروئی کے ساتھ نبرد آزما ہو سکتی ہے۔
تحریر : ممتاز حیدر
03215473472