نیٹو کے باوجود افغانستان مستحکم نہیں ہو سکا : کرزئی

Hamid Karzai

Hamid Karzai

کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی تمام اسلامی شدت پسندوں گروہوں سے بات چیت جاری ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے معاملے پر نیٹو کی کارروائیوں سے افغانستان کو بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور حاصل کچھ نہیں ہوا کیونکہ ملک ابھی تک محفوظ نہیں ہے۔ نیٹو نے غلطی کرتے ہوئے لڑائی میں توجہ پاکستان میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کی بجائے افغان دیہات پر دی۔

افغانستان میں نیٹو کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موجودگی کے باوجود ملک مستحکم نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے نیٹو پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی نہیں ہوتی کہ یہاں جزوی سکیورٹی ہے۔ یہ وہ نہیں تھا جو ہم چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ مکمل طور پر سکیورٹی ہو اور دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپور جنگ ہو۔ اب میری ترجیح ہے کہ افغانستان میں امن اور سکیورٹی قائم ہو اور جس میں طالبان کے ساتھ اقتدار کی شراکت داری کا معاہدہ ہو۔ صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ حکومت کی تمام اسلامی شدت پسندوں گروہوں سے بات چیت جاری ہے۔

طالبان کو حکومت میں شامل کئے جانے کی صورت میں خواتین کے حقوق پر پائی جانی والی تشویش کو رد کرتے ہوئے کہا صدر کرزئی نے کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین پڑھیں گی اور اعلی تعلیم اور ملازمتیں حاصل کریں گی۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اگر طالبان بھی آتے ہیں تو یہ عمل سست روی کا شکار ہو گا۔

واضع رہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ 2014 میں افغانستان میں امریکی افواج کی اکثریت وہاں سے چلی جائے البتہ وہ اس کے بعد بھی دس ہزار فوجی افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ افغان صدارتی انتخابات سے پہلے صدر کرزئی سے سکیورٹی کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس میں سال دو ہزار چودہ میں غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان سے امریکی تعلقات کا باضابطہ تعین ہو گا۔ صدر کرزئی کا برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی آمد کے بعد شروع کے چند سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے رہے کیونکہ شروع کے سالوں میں ہمارے موقف میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔