آج کل یہ بات پاکستان سمیت عالمی میڈیا پر زیربحث ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے ملالہ یوسف زئی کو ایک بار پھر جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ یہ دھمکی ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب پوری دنیا بڑی بے چینی سے اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ یہ بہادر لڑکی سال رواں کا نوبل امن انعام جیت کر تاریخ رقم کرے گی۔ 11 اکتوبر کو اوسلو میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔ تقریباً ایک سال قبل 9 اکتوبر 2012ء کو طالبان کے دو دہشت گردوں نے 15 سالہ ملالہ پر سوات میں اس وقت گولیاں چلا دی تھیں جب وہ اسکول وین میں گھر جا رہی تھی۔ ان نامعلوم حملہ آوروں نے ملالہ کا نام دریافت کرتے ہوئے اس پر حملہ کیا تھا۔ اس حملہ میں ملالہ کے سر میں گولی لگی تھی اور وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد چند ماہ قبل چلنے پھرنے کے قابل ہوئی ہے۔ پاکستان میں ابتدائی علاج کے بعد حکومت پاکستان نے ملالہ کو برمنگھم روانہ کیا تھا۔ جہاں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کے متعدد آپریشن کئے۔ اب وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ برمنگھم میں مقیم ہے۔
ملالہ یوسف زئی کے ساتھ اس کی دو ہم جماعت سہیلیاں بھی زخمی ہو گئی تھیں۔ ان کی زندگی کو ملنے والی دھمکیوں کے بعد ان دونوں کو بھی ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے 13 برس کی عمر میں شہرت حاصل کی تھی۔ وہ سوات میں اپنے والد کے اسکول میں طالب علم تھی۔ لیکن انتہا پسند طالبان نواز گروہوں نے اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع قرار دیا۔ ملالہ نے بی بی سی اردو سروس پر لکھے گئے ایک بلاگ کے ذریعے اس صورتحال پر دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ اس کا صرف ایک مؤقف تھا کہ اسے اور اس جیسی ہزاروں بچیوں کو تعلیم سے محروم نہ رکھا جائے۔ سوات میں پاک فوج کی کارروائی کے بعد انتہا پسند قوتوں کو اس علاقے سے بھگا دیا گیا اور آہستہ آہستہ امن بحال ہونے لگا۔ ملالہ نے اس دوران اپنی کم عمری اور حوصلہ مندی کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل کر لی تھی۔
اس کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک میں پناہ حاصل کرنا آسان تھا لیکن اس نے اپنے اہل خاندان کے ساتھ اپنے وطن میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔ اس نے بی بی سی کے بلاگ کی وجہ سے ملنے والی شہرت کو کسی طرح پاکستان یا اسلام کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی بجائے اس نے اپنی شہرت کو پاکستان اور اسلام کی ایک خوشگوار تصویر دکھانے کے لئے استعمال کیا۔ اس کے باوجود اس کم سن بچی کی دلیری اور جرات شر کی شطانی قوتوں کو برداشت نہیں ہوئی۔ اسلام اور شریعت کے دعویدار اس گمراہ ٹولے کے ہرکاروں نے 9 اکتوبر 2012ء کو اس معصوم بچی کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اس کم عمر بچی کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر حوصلہ عطا کیا ہے کہ اس حملہ سے جانبر ہونے کے بعد برمنگھم کے اسپتال میں اس نے جو پہلا پیغام دنیا کو بھیجا، وہ یہی تھا کہ وہ بچیوں کی تعلیم کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ملالہ اور اس کے خاندان نے جلا وطن ہونے پر مجبور ہونے کے باوجود کبھی پاکستان یا اسلام کے خلاف کسی قسم کی حرف زنی نہیں کی ہے۔
Malala Yousafzai
اس کے برعکس نوجوان ملالہ دنیا بھر میں پاکستان کی شہرت کا سبب بنی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے متعدد انعام اسے مل چکے ہیں اور دو ماہ قبل اس نے اقوام متحدہ کی خصوصی جنرل اسمبلی میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرتے ہوئے دنیا بھر میں بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا تھا۔ ملالہ یوسف زئی کو دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم کے حق میں سب سے مضبوط آواز کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ اسے اپنی بہادری، عزم اور مستقل مزاجی کی وجہ سے ہر طرف سے داد و تحسین مل رہی ہے۔ تاہم پاکستان کی تاریک انتہا پسند قوتیں اس حوصلہ مند بچی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک خصوصی انٹرویو میں ایک بار پھر یہ اعلان کیا ہے کہ اگر طالبان کو موقع ملا تو وہ ملالہ یوسف زئی کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس ترجمان کے بقول ملالہ نے اسلام کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا میں ملوث ہے۔ اس کم عقل اور جاہل ترجمان کا مؤقف ہے کہ ملالہ کو دشمن کی ایجنٹ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس لئے اسلام عورت ہونے کے باوجود اسے مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ طالبان کی یہ جاہلانہ دھمکی درحقیقت علم و روشنی اور سچائی کو برداشت نہ کرنے کا اعلان ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ طالبان کا یہ رویہ اور مؤقف پاکستان کی مین اسٹریم میں بھی سرایت کر رہا ہے۔ عام لوگ ملالہ کے حوصلہ اور اس کی قدر افزائی پر بے دریغ اسے امریکہ اور مغرب کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان عناصر کو نہ یہ اندازہ ہے کہ ملالہ کی وجہ سے پاکستان کی شہرت کو عالمی سطح پر کس قدر مثبت نمائندگی نصیب ہوئی ہے اور نہ وہ یہ باور کرنے پر آمادہ ہیں کہ یہ لڑکی اس وقت دنیا بھر میں پاکستان کی سب سے بڑی سفیر ہے۔ 11 اکتوبر کو نوبل امن انعام کا اعلان کرنے والی کمیٹی 2013ء کے لئے اس انعام کا اعلان کرنے والی ہے۔ متعدد ماہرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ ملالہ نے انتہا پسندی اور جہالت کے خلاف جس بہادری سے جدوجہد جاری رکھی ہے اور اس کم عمری میں جان لیوا حملہ کا نشانہ بننے کے باوجود جس طرح اپنے مؤقف کو تبدیل کرنے سے انکار کیا ہے، وہ دنیا میں تاریک قوتوں کے خلاف بلند ہونے والی ایک بے مثال روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے وہ سال رواں کے لئے نوبل امن انعام کی سب سے مضبوط امیدوار سمجھی جا رہی ہے۔
دنیا کے جس ملک کے شہری کو بھی عالمی شہرت یافتہ یہ انعام ملتا ہے یا اس میں اسے نامزد کیا جاتا ہے تو پوری قوم اس پر سر فخر سے بلند کرتی ہے۔ بدنصیبی سے پاکستان میں سچائی، بہادری اور حق پرستی کی اس نوجوان نمائندہ کے خلاف مہم سازی کرنے والی قوتیں مسلسل سرگرم ہیں اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لئے بدستور پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ اب طالبان نے ملالہ کو مارنے کی دھمکی کا اعادہ کر کے اس ذہنیت کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساری دنیا ملالہ کے ساتھ ہے کیونکہ وہ ظلم کے خلاف حق کی بات کرتی ہے۔ طالبان ملالہ کے دشمن ہیں کیونکہ اس کی معصومیت، عزم اور سادگی، ان کے سیاہ چہروں اور استبداد کے پیغام کا پردہ چاک کر رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستانی قوم دشمن قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بننے کی بجائے اپنے ان حقیقی سپوتوں کو پہچانے جو پاک سرزمین کی ترقی و خوشحالی کے لئے گولیوں کا مقابلہ کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ ملالہ یوسف زئی بلاشبہ ان میں سرفہرست ہے۔