لاہور (جیوڈیسک) ملالہ یوسف زئی نے صرف سولہ سال کی عمر میں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ اسی جدوجہد کی بنیاد پرملالہ کو قومی امن ایوارڈ سے نوازا گیا اور بچوں کے عالمی امن ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا۔ اکتوبر 2012 کو طالبان کے قاتلانہ حملے میں ملالہ اپنی دو سہیلیوں کائنات ریاض اور شازیہ رمضان سمیت زخمی ہو گئی تھیں۔ ملالہ کو پاکستان میں طبی امداد کے بعد برطانیہ منتقل کر دیا گیا جہاں پر صحت یابی کے بعد ملالہ نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کیا۔
اس دوارن ملالہ کو کئی اہم اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ سوات میں 3 سالہ کشیدگی کے دوران حکومتی رٹ نہیں تھی وہاں طالبان نے اپنا قانون نافذ کر رکھا تھا۔ سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی تھی جبکہ عورتیں گھروں تک محدود تھیں۔ ایسے حالات میں ملالہ یوسف زئی نے صرف سولہ سال کی عمر میں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ اس ایک سال کے دوران ملالہ پوری دنیا میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔
اور انہیں عالمی سطح پر تعلیم کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی بھی مقرر کر دیا گیا جب کہ ان کا نام نوبل امن انعام کے لئے بھی نامزد کیا جا چکا ہے۔ جرمنی کے ایک خبر رساں ادارے کے مطابق ملالہ یوسف زئی کی جدوجہد کو جہاں پوری دنیا تسلیم کر رہی ہے وہاں سوات کی طالبات بھی ملالہ کو اپنا آئیڈیل قرار دے رہی ہیں۔
ملالہ کی جدوجہد کی وجہ سے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ ملالہ پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے پر دنیا بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ گیا تھا جب کہ اس ایک سال کے دوران تعلیم کے لئے اپنی جدوجہد پر ملالہ یوسف زئی کو بین الاقومی طور پر ایک آئکن کا مقام بھی حاصل ہو گیا ہے۔