اب یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ معاشی صورتحال کے حوالے سے پاکستان دنیا کے بے شمار ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے ہے جس کی سے بڑی وجہ یہاں کے کرتا دھرتا ان پڑھ اور جاہل وہ خزانچی ہیں کہ جن کے ہاتھ میں ملکی خزانے کی کنجی دے دی گئی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہاں پر سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ انتشار اور دہشت گردی کی وجہ سے کوئی بھی یہاں پر نئے کارخانے فیکٹری یہاں تک کے اپنا پیسہ بھی لگانے کو تیار نہیں ہے۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ یہاں بازاروں سے خرید کر ڈگریاں لانے والے آج پاکستان کا بجٹ تیار کر رہے ہیں۔ یہ نااہل لو گ کیا جانیں حکومتیں کیسے کی جاتی ہیں۔ اس بات میں کافی حد تک سچائی بھی نظرتی ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے وزارتیں بندر بانٹ کی طرح تقسیم کر رکھی ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایک ایسے شخص کو اس شعبے کا وزیر مشیر یا کوئی اہم عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جسے اس ادارے یا شعبہ کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا اس کی سب سے بڑی مثال نجم سیٹھی صاحب کی ہے۔
ان صاحب کا کر کٹ سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہے اور انہیں موجودہ حکومت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیرمین بنا دیا ہے۔ اداروں کی تباہی اسی مقام سے شروع ہوتی ہے جو ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی کئی عہدے اپنے پاس سنبھال رکھے ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں اہل سیاست دانوں کا قحط پڑ گیا ہے۔ جب ایک شخص کے پاس اتنے عہدے ہوں گے تو کیا وہ ان سب کے ساتھ انصاف کر پائے گا۔۔؟ اسی طرح معاشی بدحالی کی ایک اور وجہ عوام پر لگائے جانے والے بے حساب ٹیکس بھی ہیں جن کی وجہ سے لوگ ٹیکس جمع کرانے سے کتراتے ہیں۔
Economy
اگر ٹیکسز کی شرح کم کر دی جائے تو لوگوں کی اکثریت خود بخود ٹیکسز جمع کرانا شروع کر دے گی۔ ٹیکسلا یونیورسٹی کے بانی، فلسفی استاد، معیشت دان اور ماہر سیاستدان نے سیاسی معیشت پر معرکہ الاارکتاب ارتھ شاستر تحریر کی جس میں اس نے لکھا ٹیکسز کو عوام کے لیے تکلیف دہ عمل نہیں ہونا چاہیے ٹیکس سٹریکچر ہوش مند ی اور نرم دلی سے بنایا جانا چاہیے۔ ایک مثالی حکومت کو شہد کی مکھی کی طرح ٹیکس اکٹھا کرنا چاہیے۔ جو پھولوں سے اتنا ہی رس چوستی ہے کہ پھول اور مکھی دونوں باقی رہ سکیں۔ مگر لگتا ہے ہماری حکومت تو شہد کی مکھی کی طرح عوام کو سیدھا ڈنگ ہی مار رہی ہے۔ اگر حکومت عوام کو بہترین سہولیات بھی ساتھ ساتھ فراہم کرتی جائے تو یقینا عو ام بھی ہنسی خوشی ٹیکس دینے پر آمادہ نظر آئیں گے۔
مگر جب عوام یہ دیکھتی ہے کہ حکومتی کارندے اور اہل کار اپنے ہی تجوریوں کو بھرنے میں لگے ہوئے ہیں تو وہ یہ ہی سوچتی ہے کہ جب ٹیکس کا پیسہ ان کے پیٹوں میں جانا ہے تو کیا فائدہ۔۔؟ یوں وہ ٹیکس دینے سے گریز کرتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد صرف 2 فیصد ہے جو کہ ملکی معیشت کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ ٹیکس جمع کرانا کتنا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ ٹیکسز کی شرح کو کم کریں ٹیکس کا روپیہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے تاکہ عوام باآسانی ٹیکس جمع کرا سکیں جس سے ملکی خزانے میں اضافہ ہو جو یقینا ملکی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔
اس کے علاوہ ایک خاص طبقے کے لوگ اپنے فائدے کے لیے ملکی سٹاک مارکیٹ میں مصنوعی تیزی اور مندی لا رہے ہیں جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں عام لوگ سٹاک مارکیٹ میں اپنی رقم کی سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ مارکیٹ کی ایسی صورت حال یہ واضح کرتی ہے کہ سرمایہ کاری ڈوبنے کا زیادہ خدشہ ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر ملکی معیشت پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ لیکن پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری میں تبھی مثبت تبدیلی آسکتی ہے جب ملک میں امن و امان ہو گا۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پیئے گے۔
شیر ہی سب کچھ ہڑپ کر جائے۔ دہشت گردی لاقانونیت۔ بھتہ پرچی سسٹم سفارش رشوت جیسے ناسوروں کا خا تمہ ہو گا۔ یہ سب عناصر مل کر ملک کی معشیت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس لیئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی تیز مئوثر اور مفید دوائی کا فوری چھڑکائو کیا جائے اور اس کا علاج ماہر معشت دانوں محب وطن سیاست دانوں کے پاس ہی ہے اور پاکستان کو ان بیماریوں سے چھٹکارا دلا کر پاکستان کی بیمار معشت کو صحت مند اور مضبوط معیشت میں تبدیل کیا جائے تاکہ ملک کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ عوام کی خوشحالی کے بھی نئے دور کا آغاز ہو جائے۔