عید الضحیٰ عالم اسلام کا ایک بہت بڑاوہ مذہبی تہوار ہے جو ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کیلئے اپنا سب کچھ یہاں تک کہ اولاد بھی قربان کر دینے کا درس دیتا ہے مگر افسوس کہ آج ہم اُسکی محبت دل سے نکال کر دنیاوی جال میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ باپ کو بیٹے کی خبر نہیں بھائی کو بہن کی نہیں اور ماں کو بیٹی کی خبر تک نہیں ہوتی ہر ایک کو مال و زر کی حوس نے اندھا کر رکھا ہے اس دوڑ میں ہم اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ باپ اولاد کو نہیں بھائی بہن کو نہیں شوہر بیوی کو نہیں اور نمبر دار چوکیدار کو نہیں پوچھ گِچھ کر سکتا کیونکہ ہم یزیدی اصول، قوانین و تہذیب پر عمل پیرا ہیں اسی ہی لئے تو بڑوں کے سوالات پر جوابات ملتے ہیں کہ میں بالغ ہوں، آزاد پاکستانی شہری ہوں اِس لئے آپ کے کِسی سوال کا جواب دینا میرے لئے ضروری نہیں، میرے فیصلوں میں آپ کون ہوتے ہیں دخل اندازی کرنے والے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ اور جب پھر یہ ینگ جنریشن کسی پتھر سے ٹکرا کر لہو لہان ہوجاتی ہے تو سوچتی ہے کہ ٹھیک ہی کہا تھا میرے بڑے بھائی نے، میری ماںنے، میرے باپ نے، یا میرے شوہر نے ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ ہماری عمر سے گزر چکے ہیں۔
وہ ہم سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں وہ جو کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں قربان جائوں اس بیٹے پر جس نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ اے ابا جان اگر اللہ کا حکم ہے تو میری گردن پہ چھری چلانے میں دیر نہ کریں، اور اِس سے پہلے میری آنکھوں پہ پٹی باندھ لینا کہیں ایسا نہ ہو کہ چھری چلاتے وقت آپ کی نظریں میری نظر سے مل جائیں اور باپ بیٹے کی محبت خدا کی خوشنودی میں رکاوٹ بن جائے، مگر ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا و آخرت کی کامیابی محض اسلام اور اسلامی قوانین میں ہی پوشیدہ ہے ہم نے اپنی مرضی کے اپنے ہی قوانین بنا رکھے ہیں ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ کوئی بھی نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوا اور نہ ہی کوئی اپنی مرضی سے مر سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا توضیا الحق ہیلی کاپٹر میں بم سے عظیم مجاہد اسامہ بن لادن یزید کے بارود سے، سلمان تاثیر اپنے محافظ کی گولی سے، بھٹو اور اس کی بیٹی نا معلوم لوگوں کی گولیوں سے جبکہ صدر صدام کو تختہ پھانسی کی رسی سے کبھی موت نہ آتی یہاں تک کہ موت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی ،ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم اللہ رب العزت جسے چاہے نواز دے اور جس سے جو چاہے چھین لے زندگی اپنی مرضی یعنی کہ اللہ کی رضا کی بجائے شیطانی رضا کے مطابق گزارنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں آخر کیوں ؟ ہم یہ بھی تو جانتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی قوم ریاست یا ملک کی ترقی یا فلاح بہبود اگر ممکن ہوئی تو صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میںہی ممکن ہوئی۔
Eid Moon
ہم پھر بھی ان تعلیمات سے دور ہیں جن پر کی روشنی میں وہ ترقی کرکے ہمیں اپنے اشاروں پہ ناچنے کیلئے مجبور کر رہے ہیں وہ زمین و آسمان تک کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں مگر ہمارا اپنے ملکی حالات پر تو کیا خود پر بھی کنٹرول نہیں، ایک ایسی قوم جن کو یہ تعلیمات ورثے میں میل ہیں اگر وہ انگریز کے بنائے ہوئے ایسے رنگین قوانین جن سے وہ خود شرمندہ ہیں کو پسند کرتی تو آج ہماری یہ حالت کبھی نہ ہوتی، زیادہ عرصے کی بات نہیں حال ہی میں امت مسلمہ عید الضحیٰ کے تہوار کو انتہائی مذہبی عقیدت و حترام اور اپنے مذہبی جوش خروش سے منایا کرتی تھی لوگوں میں اپنے خدا کو راضی کرنے کا جنون کی حد تک جذبہ پایا جاتا تھا جس شام عید کا چاند نظر آنا ہوتا اُس روز حجاموں کے پاس انتہا کا ہجوم دیکھنے کو ملتا کیوں کہ چاند نظر آنے سے قبل سنت کے مطابق حجامت کروانا اور ناخن وغیرہ کٹوانے کے بعد عید نماز پڑھنے تک بال وغیرہ نہ کٹوا کر سنت پوری کی جاتی تھی جس کا اسلام میں بہت بڑا درجہ ہے مگر آج کل کیا ہو رہا ہے کہ عید کا چاند نظر آنے سے بھی پہلے ہی چھریاں ٹوکے تیز کر لئے جاتے ہیں۔
پہلے جہاں جانوروں کو کاٹا جاتا تھا اب وہاں انسانیت کو کاٹنے کے لئے لوگ میدان میں کود پڑتے ہیں اور تو اور اس لوٹ مار کو روکنے والے یعنی کہ قانون کے محافظ خود ہی جب میدان میں ہوں گے تو کسی کو روکے کون گا؟ منتھلیاں دوگنا ہو جاتی ہیں منشیات فروشوں کے اڈوں پر منشیات کی اور قعبہ خانوں پر رنگ برنگی تتلیوں کی اس قدر درآمدات وبر آمدات میں اضافہ ہوتا ہے کہ کوئی شمار ہی نہیں جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی شریک جرم ہوتے ہیں مگر وہ بھی جائیں تو جائیں کہاں نوکری دولت اور شہرت کس کو عزیز نہیں ماہانا لاکھوں ملنے کے ساتھ ساتھ سیاسی وڈیروں کی سفارشات بھی تو انہیں کے پاس ہی جاتی ہیں دوسرا پھر اپنے افسران بالا کو بکرے بھی تو خرید کے دینے ہوتے ہیں جبکہ تیسرا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے افسران کے بیوی بچوں کی شوپنگ کا بندو بست بھی تو انہیں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے جن کے پاس سفارشات نہیں جاتیں وہ خود چل کر سفارشات اور منتھلیاں دینے والوں کے پاس جا پہنچتے ہیں جہاں قوم پر انتہائی ناقص قسم کی اشیاء خورد ونوش کے عوض مہنگائی کے بم گرائے جا رہے ہوتے ہیں۔
وہاں یہ چل کر جانے والے بھی کھلے عام سودے بازی میں مصروف عمل ہوتے ہیں جیسے انہیں کوئی پوچھ کچھ کرنے والا ابھی تک پیدا ہی نہ ہوا ہو کچھ عرصہ قبل مساجد میں اس قدر ہجوم ہوتا تھا کہ لیٹ آنے والے کو جلد جگہ ہی نہیں ملتی تھی اور جذبہ ایمانی سے سرشار پولیس دن بھر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے پر معمور دکھائی دیتی تھی مگر اب امام مسجد حضرات چلا چلا کر رہ جاتے ہیں اور ہماری نو جوان نسل کے ساتھ ساتھ قانون کے رکھوالے بھی شراب نوشی میں مصروف رہتے ہیں اتنا رش مساجد اور قربان گاہوں میں نہیں ہوتا جتنا قعبہ خانوں اور شراب کے اڈوں پر دکھائی دیتا ہے پہلے مساجد میں جگہ نہیں ملا کرتی تھی اور اب لیٹ پہنچنے والوں کی قہبہ خانوں اور شراب کے اڈوں پر باری نہیں آتی اور تو اور نماز عید قبربان کے وقت سوائے امام مسجد کے کسی کے منع پر کوئی ایک بال تک نظر نہیں آ رہا ہوتا چہرے ایسے لگ رہے ہوتے ہیں جیسے کسی خواجہ سرا کی صاف ستھری ایڑی ہو خیر چھوڑیں ہو تو اس کے علاوہ بھی بہت کچھ رہا ہے مگر یہاں لکھ کر بتائوں تو کس کو ؟۔
یوں لگتا ہے جیسے سبھی ایک ہی دھاگے میں پرو دیئے گئے ہوں، مگر یہا ںیہ سب اِس لئے لکھا کہ شاید ہم میں سے کسی ایک کو ہی آخرت کا خیال آجائے اور وہ اُن تمام تر برائیوں کو جو رضا الٰہی میں رکاوٹ بنیں ترک کرکے سیدھا راستہ اختیار کر لے جو ہمارے پرور دگار نے ہم پر فرض کیا لکھنے کو تو اور بھی بہت کُچھ باقی ہے مگر تحریر کافی لمبی ہو جانے کے سبب اِس کڑوی گولی کا یہیں اختتام کرنا پڑ رہا ہے کڑوی گولی اِس لئے کہا کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتا ہے اِس لئے میری اِس تحریر سے اگر کِسی کی دِل آزاری ہوئی ہو تو اُس کیلئے معذرت خوا ہوں، اپنا اور اپنے پیاروں کا بہت بہت خیال رکھیئے گا مگر دائرہ اسلام کے اندر رہتے ہوئے آپ میرے ای میل ایڈریس کے علاوہ شام 6 بجے کے بعد میرے موبائل نمبر 03143663818 پر بھی مُجھ رابطہ کر سکتے ہیں(فی ایمان ِللہ)۔