مرکزی حکومت نے یکم اکتوبر سے بجلی کی قیمتوں میں محیرالعقول اضافہ کر دیا جسے سپریم کورٹ نے اِس بنیاد پر رد کر دیا کہ حکومت کو ایسے نوٹیفیکیشن کے اجراء کا حق نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ ایسا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حق صرف نیپرا کو حاصل ہے۔
اب اخباری اطلاع کے مطابق صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی ”میڈم نیپرا” حکومتی فیصلے کی توثیق کر تے ہوئے وہی اضافہ برقرار رکھنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔یہ اضافہ عیدِ قُربان پر اِس لیے کیا گیا ہے کہ حاکمانِ وقت عوام کی قُربانی چاہتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ عوام کو یہ کڑوی گولی بہرحال نگلنا پڑے گی۔
وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب نے قائدِ اعظم لائبریری کے زیرِ اہتمام سعید آسی کے کالموں کے مجموعے کی تقریبِ رونمائی میں فرمایا کہ حکومتی اخراجات میں 35 فیصد کمی کر کے سب سے پہلے کڑوی گولی ہم نے کھائی۔ کڑوی گولی کی مزید تشریح کرتے ہوئے انہوں نے بڑے دُکھ بھرے انداز میں فرمایا ” ہم اب بھی پُرانی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور اپنے کمروں کے پردے اور فرنیچر تک تبدیل نہیں کروائے” واقعی یہ حاکمانِ وقت کی لازوال قُربانی ہے جسے گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے لیکن انگریز چونکہ ہمارے مخالف ہیں اور گینیز بُک اُن کی ملکیت ہے اِس لیے شاید اُس میں تو یہ قُربانی درج نہ ہو البتہ مورخ اس قُربانی کو ”تاریخِ پاکستان ” میں سنہری حروف میں لکھے گا۔
ویسے تو ہم نے بھی کئی سالوں سے پردے تبدیل کیے ہیں نہ فرنیچر اِس لیے ہمارا نام بھی تاریخ کی زینت بننا چاہیے اور جِن 70 فیصد سے زائد لوگوں نے پردوں اور فرنیچر کا روگ سرے سے پالا ہی نہیں، اُن کے لیے تو الگ سے تاریخ مرتب ہونی چاہیے لیکن ایسا ہوگا کچھ نہیں کیونکہ ہم جس جمہوریت میں بَس رہے ہیں اُس کا تقاضا یہی ہے کہ عوام قُربانی دیں اور خواص اُس سے حَظ اٹھائیں۔ یہ رجعت پسندانہ اسلام تو نہیں کہ جس کے خلیفہ عمر بدن پر موٹے کھدر کا کرتہ، سر پر پھٹا عمامہ، پائوں میں پھٹی جوتیاں پہنے، کندھے پر مشکیزہ اُٹھائے بیوہ عورتوں کے گھروں میں پانی بھریں اور کام سے تھک کر مسجد کے کونے میں خاک کے فرش پر لیٹ کر سو جائیں۔ مکّے سے مدینے تک سفر کریں تو خیمہ ساتھ ہو نہ شامیانہ جہاں ٹھہرے کسی درخت پر چادر ڈال دی اور سائے میں پڑے رہے ۔گھر کا خرچ دو درہم روزانہ۔ پھر بھی منبر پر چڑھ کر کہیں ”اے لوگو ! اگر میں دنیا کی طرف جھُک جاؤں تو تم کیا کرو گے ایک شخص تلوار نیام سے نکال کر بولا ” تمہارا سر اُڑا دونگا۔ حضرت عمر ڈانٹ کر بولے ”میں امیر المومنین ہوں، تُو میری شان میں یہ لفظ کہتا ہے۔
اُس شخص نے کہا ”ہاں تمہاری شان میں”۔ حضرت عمر مسکرائے اور فرمایا ”خُدا کا شکر ہے قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کر دیں قوم تو ہم بھی ہیں اور قومِ مسلم بھی لیکن قحط الرجال کا یہ عالم کہ اِن فرنیچر، پردے اور گاڑیوں کو تبدیل نہ کرنے کے دُکھ میں مبتلاء حاکمانِ وقت کو سیدھا کرنے والا کوئی نہیں۔ ویسے محترم پرویز رشید صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ قوم نے اُن کی حکومت کو نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے ووٹ نہیں دیئے تھے اور جس بُلٹ پروف گاڑی میں وہ سفر کرتے ہیں وہ 99.99 فیصد کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔
Pervez Rasheed
پھر بھی ہم جنابِ پرویز رشید کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعا گو ہیں کہ اُنہیں جلد از جلد نئی چمچماتی بُلٹ پروف گاڑی مل جائے لیکن ساتھ ہی یہ عرضداشت بھی پیش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چونکہ وزیرِ اطلاعات ہیں اِس لیے ہمارا ایک چھوٹا سا کام کر دیں ۔کام یہ ہے کہ اِس بیباک الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست کرتے ہوئے اُسے راہِ راست پر لے آئیں۔ صبح سے سارے نیوز چینل قوم کو گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ گنوا کر یہ بتلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام ملنے میں کتنی دیر باقی ہے۔
جب گھڑیاں گِن گِن کر وہ وقت آیا تو انعام کوئی اور لے اُڑا۔ ہم نے سُکھ کا سانس لیا کہ چلو جو ہونا تھا سو ہو چکا اب ملک کی کوئی خیر خبر آئے گی لیکن ”یہ نہ تھی ہماری قسمت جونہی نوبل پرائز کا اعلان ہوا چینلوں پر دُکھی دُکھی سی دھنوں کے ساتھ سب نے یہ گانا شروع کر دیا۔ (تُم جیتو، یا ہارو، ہمیں تُم سے پیار ہے) محترم نواز شریف صاحب نے نیویارک میں فرمایا کہ ملالہ میری بیٹی ہے۔میاں صاحب کے اِس بیان کے بعد زرداری خاندان بھلا کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ بلاول، بختاور اور آصفہ زرداری کا مشترکہ بیان ہے ”ہم ملالہ کو وزیرِ اعظم دیکھنا چاہتے ہیں شاید یہ حبّ علی نہیں، بغضِ معاویہ ہو کیونکہ اِن نوجوانوں کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ اب اُن کی حکومت تو آنے کی نہیں اور نہ ہی ”پاپا” کبھی ایوانِ صدر کا مُکھ دیکھ پائیں گے اگر نواز لیگ اپنی ”حرکتوں” کی بنا پر غیر مقبول ہو بھی گئی تو کپتان صاحب اپنی باری لینے کے لیے بے تاب ہیں اِس لیے یورپ اور امریکہ کی ”چہیتی” ملالہ زندہ باد۔ اب تو ملالہ بھی کہتی ہے کہ پہلے وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن اب اُس کا ٹارگٹ وزارتِ عظمیٰ ہے۔ پتہ نہیں پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ اتنی سستی کیوں ہو گئی ہے کہ لوگ وزارتِ عظمیٰ سے کم پہ ٹھہرتے ہی نہیں۔
اِس میں کچھ کلام نہیں کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ”حسنِ کرشمہ ساز” معجزے دِکھا سکتا ہے ،حالانکہ معجزوں کا دَور گزر چکا۔ کچھ عرصہ پہلے مختاراں مائی نامی لڑکی کو میڈیا نے آسمان پہ چڑھایا، این جی اوز نے مختاراں مائی کو مثال بنا کر حقوقِ نسواں کی دہائی دی اور یورپ و امریکہ تو ہمیشہ ایسے واقعات کے انتظار میں رہتے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر دینِ مبیں کے خلاف زہر اُگلا جائے۔ چنانچہ مختاراں مائی آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگی ۔جب اہلِ یورپ نے جی بھر کے زہر اُگل لیا اور این جی اوز کے پیٹ بھی ڈالروں سے بھر گئے تو مختاراں مائی قصّۂ پارینہ بن گئی۔اب پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک مختاراں مائی کا کہیں نشان تک باقی نہیں۔
ملالہ یوسف زئی نے ”گُل مکئی” کے نام سے BBC میں اپنی ڈائری کے اوراق بھیجنا شروع کیے اور وہیں سے اُس کے تیز و طرار والد ضیاء الدین یوسف زئی نے اپنی بیٹی کی مشہوری کا پلان ترتیب دیا ۔جس ڈائری کی بنیاد پر ملالہ مشہور ہوئی اُس کے بارے میں یہ قصّے مشہور ہوئے کہ وہ ڈائری اُسی کی کلاس کی ایک دوسری لڑکی نے لکھی تھی جو ضیاء الدین یوسف زئی کے ہاتھ لگ گئی اور اُس نے گُل مکئی کے نام سے BBC میں بھجوانے کا منصوبہ بنایا۔ بہرحال یہ تاریخ ہے اور تاریخ کبھی نہ کبھی سچ ضرور اُگلتی ہے ۔البتہ یہ طے ہے کہ اگر طالبان ملالہ پر حملہ کرنے کی ”حماقت” نہ کرتے، ہمارا الیکٹرانک میڈیا معاملے کو آسمان کی رفعتوں تک نہ پہنچاتا اور یورپ و امریکہ کو دینِ مبیں کو طالبان کے حوالے سے بدنام کرنے کی ”خبیثانہ” ضرورت محسوس نہ ہوتی۔
تو آج یہ ملالہ بھی اُن ہزاروں ملالاؤں میں سے ایک ہوتی جو آج بھی وحشی امریکہ اور چنگیزیت کے علمبردار طالبان کی دہشت گردیوں کی بنا پر کھلے آسمان تلے سسکتی یہ دُعائیں کرتی نظر آتی ہیں کہ کاش اُن کے کان کو چھوتی ہوئی طالبان کی کوئی گولی اُنہیں بھی لگ جاتی۔ اُن کے باپ کو بھی کسی ہائی کمشن میں ملازمت مل جاتی۔ اُن پر بھی کالم لکھے جاتے، استقبالیے ہوتے، دُنیا جہان کے ایوارڈ ملتے، دولت گھر کی باندی اور شہرت دَر کی لَونڈی ہوتی۔