نعشوں اور قبور کی بے حرمتی

Hazrat Muhammed (S.A.W.W)

Hazrat Muhammed (S.A.W.W)

نعشوں اور قبور کی بے حرمتی کا سلسلہ قدیم سے جاری ہے۔ لیکن کبھی کسی سچے عاشق رسول نے ایسی قبیح حرکت نہیں کی بلکہ ہمیشہ یہ ظلم تو اسلام دشمنوں نے کئے۔ آئیں جائزہ لیں کہ اسلام کی تاریخ اس بارے میں کیا کہتی ہے اور پیارے آقا محمد مصطفی و احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کا اس بارے میں کیا طرز عمل تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم تو یہ تھی۔ آپ نے فرمایا ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف و ما لا یعطی علی ما سواہ(مسلم کتاب البر و الصلہ باب نہی من ضرب الوجہ) اللہ تعالی نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اتنا سخت گیری کا نہیں دیتا۔ بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا۔ جہاں تک انسانی میت کی توہین و تذلیل کا تعلق ہے تو اس سے وفات پانے والے کا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ صرف یہ ناپاک ظلم کرنے والے ایسے انسان اپنی دنیا اور آخرت خراب کرتے ہیں اور اپنے وحشی ہونے کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اور یہ بات ان کی درندگی کو ظاہر کرتی ہے۔

اسلام کا حکم یہ ہے کہ تم مرنے والوں کو برا بھلا تک نہ کہو وہ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ خداوند تعالی جیسا چاہے گا ان سے سلوک فرمائے گا۔ اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک یہودیہ فوت ہوئی تو حضرت عمر کی اجازت سے اس کی تدفین مسلمانوں کے قبرستان میں ہوئی۔ (السنن الکبری، کتاب الجنائز باب النصرانی تموت وفی بطہنا و نومسلم)ایک حدیث میں ہے کہ مر علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بجناز فقام فقیل لہ انہ یھودی فقال لیست نفسا (سنن نسائی۔ کتاب الجنائز باب القیام الجناز اھل الشرک)کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا، انسان تو ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم تھا کہ کسی مخالف کی نعش کا مثلہ نہ کیا جائے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو وحشت مذہب سے دور لوگوں میں پائی جاتی ہے آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسلمانوں میں اس کو مٹانا چاہتے تھے۔ اور سب کو تہذیب کے دائرہ میں رکھنا آپ کا منصب خاص تھا۔ آپ رحمت العالمین تھے۔

حضرت خدیجہ اور دوسرے صحابہ کی تدفین اس قبرستان میں ہوئی جو مکہ کا پرانا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاندانی قبرستان تھا اور اس میں مکہ کے وہ لوگ بھی دفن ہوا کرتے تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ یہی جگہ بعد میں جنت المعلی کہلائی۔ الرحل الحجازی کے مصنف محمد اللبیب، مکہ کی تاریخ لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں: جنت المعلی مکی قبرستان ہے۔ اس میں حضرت خدیجہ کا مزار مبارک ہے۔ حضرت خدیجہ کی قبر کے پاس ہی مکہ کے سولہ سرداروں کی قبریں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہ کی قبر کے پاس حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ کا مزار بھی ہے۔ قریب ہی ابوطالب کا مزار ہے۔ (الرحل الحجازیہ صفحہ۔) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ طرز عمل تھا کہ اگر میدانِ جنگ میں یا اس قسم کے حالات میں آپ کو کوئی نعش پڑی ملتی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کی تدفین کا حکم دیتے اور اسے اپنی نگرانی میں دفن کراتے اور یہ نہ پوچھتے کہ یہ مومن کی نعش ہے یا کافر کی۔ (السیر الحلبی۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔

الجز الثانی صفحہ، مطبع محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر )بنو قریظہ کو جب ان کی سرکشی کی سزا دی گئی تو ان کی نعشوں کو خندقیں کھدوا کر دفن کیا گیا۔(السیر النبوی لابن ھشام، الجز الثالث صفحہ، دارالجیل بیروت لبنان) جنگ بدر میں اور جنگ احد میں آپ نے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی، وقت کی تنگی کی وجہ سے جس طرح کئی مسلمان شہدا کو ایک ہی قبر میں دفن کروایا گیا اسی طرح کفار کی نعشوں کو بھی ایک ہی جگہ دفن کروایا۔( السیر الحلبی۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجز الثانی صفحہ، مطبع محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر )جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گر کر ہلاک ہوگیا اور نعش پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ کفار نے پیشکش کی کہ دس ہزار درھم لے لیں اور یہ نعش ان کے حوالے کر دی جائے۔

Grave Bare

Grave Bare

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہم مردہ فروش نہیں، ہم اس کی دیت نہیں لیں گے اور پھر بلامعاوضہ اس نعش کو واپس کردیا۔ (شرح الامام العلامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی علی المواھب اللدنی للعلام القسطلانی۔ الجز الثانی صفحہ، الطبع الاولی بالمطبع الازھری المصری) (السیر النبوی لابن ھشام، الجز الثالث صفحہ، دارالجیل بیروت لبنان) فقہ کی مشہور کتاب بحرالرائق میں لکھا ہے کہ: اگر قبر ننگی ہو جائے اور اس میں یہودی کی ہڈیاں نظر آ جائیں تو ان کی بے حرمتی نہ کی جائے کیونکہ ان ہڈیوں کی حرمت بھی وہی ہے جو مسلمانوں کی ہڈیوں کی ہے۔ نیز جب زندگی میں ان سے ظالمانہ سلوک کرنا اور ان کی بے حرمتی کرنا منع ہے تو ان کی وفات کے بعد بطریق اولی یہ ممانعت قائم ہے۔ (البحرالرائق شرح کنزالدقائق۔ الشیخ زین الدین الشھیر بابن نجیم الجز الثانی صفحہ۔ طبع فی المطبع العربی۔ لاہور) بدائع الصنائع میں لکھا ہے کہ: توہین کی غرض سے قبر اکھیڑنا حرام ہے۔ (البحرالرائق شرح کنزالدقائق۔ الشیخ زین الدین الشھیر بابن نجیم الجز الثانی صفحہ۔ طبع فی المطبع العربی۔ لاہور) آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: لا تسبوا لموات فانھم قد افضوا الی ما قدموا (المسقدرک۔ کتاب الجنائز باب النہی عن سب المیت) تم وفات یافتہ لوگوں کو برا بھلا نہ کہو۔ ان سے برا سلوک نہ کرو کیونکہ وہ اپنے خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں۔

اسی طرح حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن بیان کرتی ہیں کہ: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم المختفی والمختفی یعنی نباش القبور (موطا امام مالک، جنائز، باب ما جا فی الاختفا وھوالنبش) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قبروں کو بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر اکھیڑنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اسی طرح ابو داد کی روایت میں ہے کہ جو شخص کسی مردے کی قبر بد نیتی سے اکھیڑتا ہے تو اسے قطع ید کی سزا دی جائے کیونکہ وہ ایک میت کے گھر میں داخل ہوا ہے۔(ابوداد کتاب الحدود باب فی قطع النباش) قرآن کریم فرماتا ہے کہ و کذلک جعلنکم ام وسطا لتکونوا شھدآ علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا (البقر:) یعنی ہم نے تم کو ایک اعلی معاشرہ پیش کرنے والی قوم بنایا جو دنیا کے لئے نمونہ اور بطور گواہ کے ہوں اور تمہارے رسول کو جو خلق عظیم پر قائم ہیں تمہارے لئے نمونہ اور اسوہ حسنہ بنایا ہے۔ مسلمان تو خود ظلم کا شکار ہوئئے نہ کہ انھوں نے ظلم کئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی نعش مبارک کے ساتھ ظالموں نے بے حرمتی کی۔ تاریخی واقعہ ہے کہ بعض عناصر نے سازش کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار مبارک کی بے حرمتی کی جائے۔

Hazrat Imam Hussain (A.S)

Hazrat Imam Hussain (A.S)

لیکن اس زمانہ کے مشہور مسلمان بادشاہ نورالدین زنگی کو خواب میں بتایا گیا کہ کچھ بدبخت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار مبارک کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس عادل بادشاہ نے مدینہ میں آکر خواب کی تعبیر کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دو عیسائی روض مبارک سے کچھ فاصلے پر رہائش پذیر ہیں اور وہ سرنگ لگا کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسد مبارک کی بے حرمتی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان عیسائیوں کو حسب جرم سزا دی گئی اور پھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار مبارک کے اردگرد تانبا اور سیسہ پگھلا کر ایسا پختہ انتظام کر دیا گیا کہ آئندہ کوئی بدبخت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار مبارک تک نہ پہنچ سکے۔ (وفا الوفا بخبار دارالمصطفی۔ تالیف نورالدین علی الشافعی السمہودی۔ الجز الاول صفحہ۔ بمطبع الآداب والمید بمصر سن ھجری) اسلام کا مقصد تہذیب اور شائستگی، حوصلہ مندی اور بردباری، ہمدردی اور رواداری اور اخلاق پیدا کرنا ہے۔ انسان کو انسان بنانا ہے نہ کہ حیوان ۔ اسلام انسانیت سکھاتا ہے۔ اسلام کیا ہے صرف اور صرف امن ہے۔ اسلام نے ہر وقت خیر اور بھلاء کا حکم دیا ہے اور براء اورشر سے روکا ہے۔ اسلام نے اچھے آداب اور اخلاق حسنہ کا حکم دیا ہے۔

مثلا : صدق وسچائ، حلم وبردباری، رقت و نرمی، عاجزی و انکساری، تواضع، شرم وحیا، عھدو وفاداری، وقار و حلم ، بہادری و شجاعت، صبر وتحمل، محبت و الفت، عدل و انصاف، رحم ومہربانی، رضامندی و قناعت، عفت و عصمت، احسان، درگزرو معافی، امانت و دیانت، نیکی کا شکریہ ادا کرنا، اور غیض وغضب کوپی جانا، والدین سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے صلہ رحمی، بے کس کی مدد اور تعاون، پڑوسی سے احسان، یتیم اور اس کے مال کی حفاظت، چھوٹے بچوں پر رحم، بڑوں کی عزت و توقیر اور احترام، ملازموں اور غلاموں اور جانوروں سے نرم کیساتھ پیش آنا، راستے سے تکلیف دہ اشیا کو ہٹانا، اور لوگوں سے اچھی بات کرنا اور طاقت ہونے کے باوجود ان سے عفو درگزر سے کام لینا۔ امریکہ، کینیڈا، یورپ اور دوسرے غیر ممالک میں جو مسلمان فوت ہوتے ہیں عام طور پر ان کی تدفین ایسے ہی قبرستان میں ہوتی ہے جن میں عیسائی بھی دفن ہوتے ہیں۔ اس پر نہ کبھی عیسائیوں نے اعتراض کیا اور نہ کبھی مسلمانوں نے کوء سوال اٹھایا۔ کراچی کا میوہ شاہ، ماڑی پور، اندرون سندھ مکلی، حیدرآباد، لاہور کا میانی، اور اسی طرح کئی قبرستان پاکستان میں بھی ہیں جہاں ایک حصے میں مسلمان دفن ہیں اور دوسرے میں غیر مسلم ہیں۔ آج تک کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اے اللہ تو اس قوم کو ھدایت دے آمین یہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ اس بابرکت وجود صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طفیل ان پر رحم کر اور ان کو اسلام حقیقی اسلام جو کہ امن ہے اس کو اس طرح بد نام کرنے سے بچا۔ آمین
تحریر : عادل بٹ