بعض اوقات میں صبح سویرے اس وقت گھر سے نکلتا ہوں۔ جب صبح کے سورج کی مدہم روشنی آہستہ آہستہ زمین پر پھیلے اندھیروں کو گمنامی کی دھول میں دھکیلنے کیلئے اپنی جھلملاتی رنگین کرنیں بکھیرنے میں مصروف ہوتی ہیں۔ شہرکی معروف شاہراہ پر مجھے اکثر پرائیویٹ سکول کی گاڑی کھڑی نظر آتی ہے میری نظر ان معصوم بچوں پر پڑتی ہے جو ایک خوبصورت قطار کی شکل میں پرندوں کے جھنڈ کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
کچھ پھول مختلف رنگ کے کھلتے گلاب کی طرح نظرآتے ہیں ان بچوں کی چہچہاہٹ کانوں میں عجیب سر تال چھیڑتی ہے۔ ن میں کئی معصوم چہروں پر اداسی کا رنگ جھلکتا ہے کئی چہرے پر سکوں ہوتے ہیں اور کئی چہروں پر معصومیت سجی ہوتی ہے۔ یہ بچے اپنے کل کو روشن کرنے کیلئے مستقبل کے پرعزم جذبوں سے بھرپور دکھائی دیتے ہیں۔
میں ان کھلتے گلابوں کو دیکھ کر اس سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ… یہ بچے اپنے والدین کی امیدوں کا سہارا ہی نہیں پاک وطن کی ترقی کے ترجمان بھی ہیں اپنا کل روشن کرنے کیلئے یہ آج سے کوشاں ہیں۔
اپنی خواہشوں تمنائووں اور آرزئووں کو بالائے طاق رکھ کر ایک مقام حاصل کرنے کیلئے مختلف جذبے اور ولولے کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں ہمارے یہ کل کے معمار آنے والے کل کو دنیا کے افق پر جگمگانے کا باعث ہی نہیں وسیلہ بھی بنیں گے۔
مگر ایک اور منظر مجھے لرزا دیتا ہے… جب دسمبر کے کڑکتے جاڑوں میں بغلوں میں ہاتھ دئیے ننگے پائوں ان بچوں کو دیکھتا ہوں جن کے کپڑے پھٹے پرانے اور تیل میں لت پت ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں بعض اوقات وہ اوزار ہوتے ہیں جن کو لیکر وہ ڈیزل ورکشاپوں میں کام کرنے جاتے ہیں کئی ایسے ہیں جو دکانوں پر کام کرتے ہیں، ہوٹلوں پر گاہکوں کے آگے پھٹوں پر چائے رکھتے ہیں۔
Children Work Workshops
میں انہیں اس رستہ سے گزرتے دیکھتا ہوں جس پر سکول جانے والے بچے کھڑے ہوتے ہیں میں ان ورکشاپ جانے والے بچوں کی آنکھیں پڑھتا ہوں جن میں حسرت ویاس کی تحریر نمایاں نظر آتی ہے۔ میں اس سوچ میں اکثر ڈوب جاتا ہوں کہ آخر ان معصوموں کا کیا قصور ہے جن کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر اوزار تھما دئیے گئے۔ ان کھلتے گلابوں کے ساتھ یہ ناانصافی کس سماج کے نظام نے منسلک کی۔ ؟ ایک ہی ملک میں رہنے والے ایک ہی جیسے بچوں میں یہ تضاد کس نے بانٹا؟ روشن کل تو کجا ان کا تو آج بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ کتنے پھول ایسے ہوں گے جواپنے مالکوں کی جھڑکیاں کھانے پر مجبور ہوں گے۔ گھر کا چولہا جلانے کیلئے خود کو جلاجلا کر راکھ کر رہے ہیں۔ ان امارت پرستوں کے پاؤں تلے جانے کتنے معصوم بے دردی سے کچلے جا رہے ہیں لیکن کوئی ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ ان کی خشک آنکھوں کے پیچھے کتنے آنسو چھپے ہیں کسی کو یہ جاننے کی فرصت نہیں۔
ورکشاپوں اور دکانوں کے مالک، فیکٹری کے آقائوں، دفتر کے افسران کو تو اپنے کام سے غرض ہے۔ کسی کے خوابوں، تمنائووں اور آرزئووں سے انہیں کیا غرض؟ چند سکوں کے عوض یہ ان ننھے پھولوں کی تمنائووں کا رس جس طرح نچوڑتے ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اے وطن کے حساس لوگو…!ارباب اختیار…! ان معصوم ادھ کھلی کلیوں کو خزاں رسیدہ پتہ سمجھ کر جوتوں تلے کچلا جا رہا ہے۔
آج ان وقت کے ماروں کو ہماری شفقت محبت اور قربت کی ضرورت ہے اور اگر آج ہم نے اپنی شفقت ان پر نہ لٹائی تو کل جب یہ حالات کی تپتی دھوپ میں جل کر جواں ہوں گے تو ہمیں لوٹ لیں گے۔
ہمارے وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیں گے۔ اپنے حالات کی تپش سے ہمارے وطن کو جلا کر راکھ کر دیں گے، وطن دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہوں گے ہمیں اپنے کل کیلئے دہشت گرد اور خود کش بمبار پیدا نہیں کرنے خدارا ِ، خدارا سوچیئے …!