عید قرباں یا دنیا دکھاوا

Eid Ul Adha Qurbani

Eid Ul Adha Qurbani

ہم بچپن سے یہ محاورہ سنتے آ رہے ہیں کہ “نیکی کر دریا میں ڈال” مگر یہاں تواس کے برعکس ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو آج کے اس نفسا نفسی کے عالم میں کسی انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ کسی وہ غریب کی مدد کر سکے اور اگر کوئی انسان کسی کی مدد کر بھی دے تو چند افراد ہیں جو اس محاورے پر پورا اترتے ہیں ورنہ زیادہ تر لوگ تو دریا میں ڈالنے کی بجائے دنیا کے سمندر میں چیخ چیخ کر سب کو بتاتے ہیں اور جس شخص نے مدد مانگی ہوتی ہے وہ ساری زندگی ایسے لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس سے بہتر تو بھوکھا مرنا منظور ہے مگر ایسے لوگوں سے مدد کبھی نہ مانگے۔

جس چیز نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا اور جو حقیقت پر مبنی بھی ہے وہ میں اپنے اس کالم کے ذریعے اپنے قارئین سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ ہوسکتا ہے شاید میرے اس کالم کی بدولت بہت سے گمراہ لوگ اپنی سوچ کو بدل کر راہ راست پر آجائیں۔ عید الضحیٰ کے دن جن لوگوں پر قربانی واجب ہوتی ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق قربانی کا فرض ادا کرتے ہیں۔ قربانی سنت ابراہیم بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جاتی تھی۔ ہر کوئی صاحب استطاعت شخص سنت ابراہیم کو پورا کرنے کے لیے قربانی کا جانور خریدتا ہے اور پھر دس ذوالحج کو اس کو ذبح کر کے اس سنت کو ادا کرتا ہے۔

آج کل کے اس دور میں سنت ابراہیمی کو بھی دنیا داری کے طریقے سے ادا کیا جا رہا ہے۔ قربانی کا فرض دیکھا دیکھی کی بنا پر ادا کیا جا رہا ہے۔ ہر شخص اپنے عزیز واقارب اور محلے داروں کو نیچا دکھانے کے لیے جانور مہنگے سے مہنگا خریدتا ہے۔ ان کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا جانور زیادہ مہنگا ہوتا کہ رشتے داروں اور محلے داروں میں ہمارا نام سب سے اونچا ہو۔کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مہنگا جانور نہیں خرید سکتے اس لیے وہ عید سے ایک دن پہلے جانور لے کر آتے ہیں اور عید والے دن قربان کرتے ہیں۔ جولوگ مہنگا جانور خرید کرلاتے ہیں وہ ہر روز اُس جانور کو پورے محلے میں گھوماتے پھرتے ہیں تا کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ انہوں نے کتنا مہنگا جانور قربانی کے لیے خریدا ہے۔

Eid Qurbani

Eid Qurbani

جب کہ اسلام میں جانور کی قیمتی ہونے یا نہ ہونے سے کوئی سروکار نہیں اگر آپ نے 10 ہزار کا جانور لیا ہے یا 10 لاکھ کااس کا سنت ابراہیمی سے کوئی تعلق نہیں۔ قربانی تو نیت پر ہوتی ہے۔ اگر آپ نے وہ جانور دنیا دکھاوے کے لیے لیا ہے تو اس کا اجر بھی دنیا ہی ملے گیا کیونکہ آپ کا اور آپ کے جانور کا چرچا پورے محلے میں ہو رہا ہوتا ہے اور ہر کوئی آپ کی بڑائی کر رہا ہے اور یہی کچھ ایسے لوگ چاہتے ہیں۔ اللہ کو تو آپ کی نیت سے غرض ہے اس کے جانور کی خوبصورتی یا وزن سے نہیں۔ جس غریب نے اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق جانور خریدا خواہ وہ پانچ ہزار کا ہی کیوں نا ہو اللہ کو تو اس کی وہ قربانی قبول ہے۔

اکثر اسلامی تہواروں پر بچوں کی خواہش ہوتی ہیں کہ وہ اس کو اچھی طرح منا سکیں۔ انہیں اپنے گھریلو مالی حالات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ وہ بضد ہوتے ہیں کہ ان کی خواہش کو پورا کیا جائے مگر غربت ان کے آڑے آجاتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ خبر عام ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے بچوں کی خواہشات پوری نہ ہونے پر خودکشی کر لی۔ اگر صاحب حیثیت لوگ بیش قیمت جانور خریدنے کی بجائے ایسے غریب لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کم قیمت پر جانور خرید کر ان غرباء کو بھی خوشیوں میں شامل کرلیں تو سنت بھی ادا ہو جائے گی اور غرباء کی خوشیاں بھی دوبالا ہوجائیں گی۔

دنیا دار قربانی کرنے والوں کی سوچ ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ جب قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم کی باری آتی ہے تو اس میں بھی اللہ کی بجائے دنیا داری کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اچھا اچھا گوشت اپنے فریزر میں رکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد جب باہر گوشت تقسیم کرنے کی باری آتی ہے تو اس میں سے بھی جو کچھ اچھا گوشت ہوتا ہے وہ اپنے خاص دوستوں کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ بعد میں جو ہڈی اور بچا کچا گوشت رہ جاتا ہے وہ دوچار غریبوں میں تقسیم کر کے اس فرض کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ میں نے تو یہ سنا ہے کہ اسلام کے مطابق قربانی کرنے کے بعد گوشت کے تین حصہ کیے جاتے ہیں۔ ایک اپنے لیے، ایک رشتہ داروں کے لیے اور ایک غریبوں کے لیے ( اگر کمی پیشی ہو تو تصدیق کر دیجئے گا) عید کے بعد یہ باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ہم نے فلاح کے گھراتنا گوشت بھیجا تھا اس کے مقابلے میں انہوں نے بہت تھوڑا گوشت بھیجا ہے آئندہ ہم بھی کم گوشت بھجیں گے اور جو حصہ غریبوں کے لیے ہوتا ہے یعنی جو اس کے اصل حقدار ہوتے ہیں ان کو ہم دروازے سے دھتکار دیتے ہیں اور پھر عید کے بعد ایک دو ماہ تک خوب گوشت کھاتے ہیں۔

کیا سنت ابراہیمی اس کا نام ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو بھی اچھی چیز پسند ہیں مگر ہم آج قربانی میں سے اچھا گوشت اپنے لیے محفوظ کر لیتے ہیں اور جو ناپسندیدہ ہو وہ غریب غرباء میں تقسیم کردیتے ہیں۔ اسلام میں ایسا کہاں لکھا ہے کہ قربانی میں اچھی چیز اپنے لیے اور ناپسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں دے دو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچی اور اچھی نیت سے قربانی کرنے اور اس کا گوشت حق داروں میں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان آف جمبر
aqeelkhancolumnist@gmail.com