تناظر کی سچائی کیا ہے؟ لاشوں کی بساط ہے کہ بچھتی جا رہی ہے۔ اور تناظر کی سچائی سے ہم نے منہ موڑ رکھا ہے اسرار اللہ گنڈا پور کی شہادت لہو رنگ واقعہ تناظر کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیا حکیم اللہ محسود کو طالبان لیڈر تسلیم کیا جا سکتا ہے جو اپنے دور کا مشہور کارلفٹر تھا اور کیا منگل خان کے پس منظر کی سچائی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو بس کنڈیکٹر تھا یہ لو گ اسرائیل انڈیا اور امریکہ کے پے رول پر لاشوں کی بساط بچھانے میں مصروف ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب کو بعض جگہوں پر مذہبی جنونیوں نے استعمال کیا جنہوں نے وحشت اور درندگیوں سے قتل و غارت گردی کی تاریخ رقم کی ان کے خلاف مسلح جنگ کی ضرورت ہے واضح ہو چلی ہے۔
لفظی سطح پر ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں ریاست کے بکھرتے ہوئے ڈھانچے کو ہم کب تک بچا پائیں گے؟ کیا ہیلری کلنٹن کے 24 اپریل 2009 کو ہاوس آپریشن کمیٹی کی سب کمیٹی کے سامنے اس اعترافی جرم کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ پاکستان مسلح دہشت گردی کا تعلق افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی پراکسی وار کا نتیجہ ہے۔ طالبان کے نا م پر دہشت گردوں کی کوئی سماجی حمایت نہیں بچی عوام ان دہشت گردوں کے مظالم اور درندگی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اسرار اللہ کی شہادت ایک واضح پیغام ہے کہ دہشت گرد اور امریکہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں APC جیسے مبا حثوں کے تنائو نے فرسٹریشن کو بڑھا دیا اضطراب اور ہیجان ہے کہ اس کی حد نہیں رہی جمہوریت کے بازار مصر میں زندہ حقائق کا قتل اب نئی بات نہیں ماضی سے لے کر حال تک عوام کے ساتھ دھوکہ دہی، جیل سازی۔ حکمران طبقہ کا وطیرہ اور اسکی اخلاقیات کی بنیادی خاصیت رہے ہیں۔
کیا ہم ایک پر پیچ اور پر انتشار عہد میں زندہ ہیں شمالی علاقہ جات میں ایک اور تناظر کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں جو عوامی فکر کی غمازی کر تا ہے یہ عوامی فکر دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد ہیں۔ ڈرون کی برستی آگ آئے روز معصوم اور نہتی جانوں کا مقدر ہے۔ اور ہم اس سوال سے جان نہیں چھڑا پائے کہ کیا پاکستان کو توڑنے کی خاطر یہ سب کچھ نہیں ہو پا رہا؟ یقینا ایسی قوتیں جن کے مقاصد نام نہاد طالبان پا یہ تکمیل کو پہنچانے کے در پے ہے ریا ستوں کی ٹوٹ پھوٹ اور نئے ممالک کی اختراع سا مراج کے مقاصد کی آبیاری ہے کیا ہم بلقان، یو گو سلاویہ کی مثالوں نظر انداز کر سکتے ہیں جن کا مفاد براہ راست امریکہ کو ہوا کیا عصر حاضر میں سب کچھ عین امریکی پالیسیوں کے تحت نہیں ہو رہا امریکی مقاصد کی آبیاری کرنے والی قوتیں امن کے مذہب اسلام کی آئیڈیالوجی مسخ کرنے درپے ہیں۔ امریکی صدر ٹرومین نے جنگ عظیم دوئم کے خاتمے پر اپنی طاقت کی دھاک اس طرح بٹھائی کہ جاپان کے ہیرو شیما اور ناگاسا کی پر ایٹم گرا کر لاکھوں زندگیوں سے محروم کر دیا۔
USA Court
سوویت یونین کے خلاف مذہب کو استعمال کرنے کا جرم بھی ٹرومین نے کیا امریکی عدالت عظمیٰ سے فیصلہ دلوایا گیا کہ مذہب کو اپنے سے بڑی اتھارٹی مانتے ہیں ہم مذہبی ہیں۔ اور ہمارے مذہبی ادارے عظمت کی معراج پر ہیں عیسائیت کو ماننے کا ذکر اس فیصلہ میں حذف محض اس بنا پر کر دیا گیا کہ دیگر مذاہب کے ساتھ خود کو منسلک کیا جا سکے آئیزن ہاورڈ بھی منافقت کی اسی روش پر چلے کہ ہماری حکومت کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک اسکی بنیادیں مذہبی عقائد پر گہری نہ ہوں مذہبی بنیاد پر ستی کو امریکیت کی طرف سے محض ہوا اس لیے جا رہی تھی کہ مذہب کا استعمال کر کے دنیا میں طاقت کا توازن توڑا جا سکے ریگن کے الفاظ درج بالا توجیح کے عکاس ہیں کہ دنیا میں صرف دو طاقتیں ہیں ایک وہ جو مذہب کو ماننے والی ہیں ان کی نمائندگی امریکہ کرتا ہے اور ایک وہ جو مذہب کو نہیں مانتیں انکی سربراہی سوویت یونین کے پاس ہے طاقت کا توازن ٹوٹا تو امریکہ مذہب کے خلاف بر سرپیکار ہوا اور اس کا ہدف اسلام بنا ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر خود ساختہ ہوائی حملوں کے بعد امریکہ نے عیسائیت اور اسلام کو تقسیم کر کے اسے تہذیبوں کے تصادم کا نام دیا صدر بش کے الفاظ کو بطور سند استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کیا شائونزم کی زہریلی دھند چھٹنے کے بعد طاقت کی وحشت کے زوال کو ہم شٹ ڈائون کی شکل میں نہیں دیکھ رہے؟ ڈرونز کے نام پر نہتے اور معصوم شہریوں پر غیر مربوط بمباری مہم پر دنیا بھر میں نفرت اور حقارت کا ایک نیا جذبہ ابھر رہا ہے ڈرون حملوں، گولہ باری، خودکش دھماکوں کا دیبا چہ کس نے دیکھا عوام کی سوچ اور شعور ایک مختلف مقا م پر کھڑے ہیں جمود اور خوف و ہراس کو بر قرار رکھنے اور مسلط کر نے والی قوت کا تعین کرنا ہو گا خیبر پختونخواہ کی گلیوں اور سڑکوں پر موت کب تک سرعا م دندنا تی پھرئے گی کہ اپنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر باہیں شل ہیں ان الفا ظ میں اتنا زہر ہے، لہجے کی دھار اتنی تیز ہے کہ پہاڑوں کے سینے چیر رہی ہے۔
لاشوں کا تسلسل لا چاری اور بے یارو مددگاری کا ماتم ہے یہ سا مراج کے گماشتے جو امن معاہدوں کو بے ضرر افراد کی لاشیں گرا کر سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں حقائق کی عینک لگا کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کون سی قوتیں اس خونیں کھیل میں شامل ہیں کم از کم ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہمیں ان ریڈیکل اثرات کا تعین کرنا ہے جو پختون عوام کے شعور پر مرتب ہو رہے ہیں کم از کم اب کف افسوس ملنے کا وقت نہیں۔