انسانی مزاج اور نفسیات میں مختلف عناصر کو دخل ہے۔ ماہرین نفسیات انسانی عادات، اطوار اور جرائم کا نفسیاتی تجزیہ مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کہیں انسان کے متشدد ہونے کا تجزیہ کیا جاتا ہے، کہیں جرائم کی نوعیت پر تحقیق ہوتی ہے، کوئی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے عناصر اور تشدد پسند اور تنہائی پسند آدمی پر تحقیق کرتا ہے۔ یوں فلسفی اور دانشور انسانی مزاج اور حرکات و سکنات کا مختلف انداز میں تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ بھی انسانی نفسیات کا ایک جزو ہے جس کا تعلق مختلف عوامل سے ہے۔
جھوٹ کیا ہے؟ انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟۔ کون سے عناصر ایسے ہیں جو کسی آدمی کو جھوٹ بولنے پر اکساتے ہیں؟ اور جھوٹ کو پروان چڑھانے والے معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان اہم سوالات پر پاکستان کے صحافی و دانشور شاہنواز فاروقی قلم اٹھاتے ہیں اور اپنے انداز میں اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ (ہم اور جھوٹ کی نفسیات) نامی یہ تجزیاتی مضمون روزنامہ جسارت کراچی میں 30 جون 1991 کو شائع ہوا۔ بعد ازاں یہی مضمون ان کی کتاب کاغذ کے سپاہی میں بھی شامل کیا گیا جو کہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے شائع کی ہے۔ مضمون نگار اپنے معاشرے کے رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے ابتداء کچھ یوں کرتے ہیں۔
اگر قوم کی اسلام پسندی کو دیکھا جائے تو ہم میں سے ہرشخص اپنے مسلمان ہونے کا شدت سے دعویدار ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے گویا اسلام سے محبت اور اس کا تحفظ صرف اور صرف اسی کی ذمہ داری ہو۔ مگر جب اس کی عملی زندگی کو دیکھو تو دوسرا ہی منظر سامنے آتا ہے۔ ہم میں سے اکثر جتنی پابندی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اتنی ہی پابندی سے رشوت بھی لیتے ہیں، جتنے خلوص سے روزے رکھتے ہیں اتنے ہی خلوص کے ساتھ اشیاء میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں۔ جتنی خاموشی سے غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں اتنی ہی خاموشی سے ریاستی ٹیکس چراتے ہیں۔
جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ، ہرجگہ جھوٹ، یہ سب صورتیں جھوٹ عملی شکلیں ہیں۔ اگر اہرمن کا وجود تسلیم کرلیا جائے تو ہم میں سے ہر ایک جھوٹ کا ایک مستند پیغمبر ہے۔ ہماری زندگی ہم پہر نازل ہونے والا جھوٹ کا صحیفہ ہے۔ اور ہم خود اپنی امت ہیں، امت ِ شر، ایسی امتِ شر جس کے شر کا نشانہ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔
قارئین !اب اگر ہم اپنے معاشرے کی طرف آنکھیں کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے لوگوں کی اکثریت جھوٹ، فراڈ، دھوکے بازی،رشوت اور اس طرح کے دوسرے جرائم میں ملوث ہے۔ کسی کو خدا کا خوف نہیں کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود کس سمت جا رہے ہیں۔ شاید پوری دنیا میں مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ یہی جرائم ہیں جنہیں ہم نے اپنے پلے باندھا ہوا ہے اور کسی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں اور اپنے ہی بھائیوں کو نقصانات پہنچا رہے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں انصاف، رواداری، صبر و تحمل کا درس دینے کے ساتھ ساتھ جھوٹ، غیبت، چوری رشوت ستانی جیسے جرائم سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے بارے میں حدیث قدسی ہے۔
Muhammad PBUH
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یقینا سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کے ہاں بہت سچ لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور آدمی یقینا جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے (بخاری و مسلم)۔ اب اگر بات کی جائے کہ جھوٹ بولنے والے کو کیسے پہنچانا جائے تو اس کے لیے سائنس نے بھی کچھ کلیے ہمیں بتائے ہیں۔ جیسے فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں سوڈیم تھیوپینٹل کو اکثر ایک ایسی دوا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کی خوراک پلا کر قیدیوں سے صحیح معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سائنس کے نامہ نگار مائیکل موزلی نے ایک ذاتی سائنسی تجربے کے بعد کہا ہے کہ سچ بولنے پر مجبور کرنے کی کوئی قابل اعتماد دوا ابھی نہیں بنائی جا سکی ہے۔ ہماری روزہ مرہ زندگی میں جھوٹ اور سچ میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔جھوٹے کا پتہ لگانے کے بارے میں کئی روایات ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولتے وقت جھوٹا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے گریز کرے گا، اپنے پاؤں ہلائے گا یا پھر اپنی ناک کھجائے گا۔ اس کے باوجود ہم اکثر جھوٹ بولتے ہیں اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کب ہم سے جان بوجھ کر دیدہ دانستہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ایک رومی تاریخ دان کیمطابق جرمن قبائل شراب پی کر اپنی کونسل کے اجلاس کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں نشے کی حالت میں جھوٹ بولنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک مفروضہ ہے کہ سوڈیم تھیوپیٹل اس طرح ہی اثر انداز ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنا سچ بولنے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ عمل ہے اور اگر آپ اپنے ذہن کے ‘ہائر کورٹیکل’ نظام کو سست کر دیں گے تو آپ کے سچ بولنے کا امکان بڑھ جائے گا اس لیے کہ سچ بولنا آسان ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جھوٹ کو کامیابی کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیں، لوگوں میں اشتعال، غصہ اور نفرت کے جزبات اجاگر کرنے کے لئے دن رات جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس معاملے میں مذہبی معاشی اور معاشرتی قدروں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ محض اس لئے کہ ان کے پیج یا ویب سائیڈ کو زیادہ سے زیادہ لائیک کیا جائے، اس بات کا اعتراف ایک مشہور ویب سائیڈ نے حال ہی میں کیا ہے جس کو ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ویزٹ کرتے ہیں۔ ان کے بقول کے اگر ہم ایسا نہ کریں تو لوگ ہماری ویب سائیڈ کا وزٹ نہیں کریں گے۔ ابھی پچھلے دنوں مسٹر بین کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا گیا جس میں کسی قسم کی صداقت نہیں تھی ۔پھر ملالہ کے معاملہ میں بھی مفروضہ پر مبنی رپوٹ شائع کی گئی جس میں نام نہاد تحقیق کی گئی کہ ملالہ عیسائی ہے اور یہ کہ اس کے والدین نے اس کو کسی سے لے کے پالا ہے۔ آخر کب تک ہم جھوٹ کا سہارا لیں گے اور سچائی کو فروغ دیں گے۔ اب تو ہمارے ملک میں اس قدر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ کا گماں ہوتا ہے۔ شاید یہ جھوٹ ہی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا۔ اللہ ہی اس ملک پر رحم کرے۔