کیا ہمارے مُلک میں پہلے ہی موروثی اور غیر سنجیدہ حکمرانو اور سیاستدانوں کی تعداد کچھ کم تھی..؟ کہ جو اَب ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نواسے، مرتضی علی بھٹو شہید کے بھانجے اور شہیدِ رانی پیار کی نشانی اور وفاق کی زنجیر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے اکلوتے بیٹے اور مسٹر ٹین پر سنٹ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد صدرِ پاکستان سے سابق صدر کا لقب پانے والے مصالحتی اور مفاہمتی پالیسیوں کے رنگ میں رنگے رہنے والے آصف علی زرداری کے صاحبزادے اور موجودہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نومولود چئیرمین اپنے معصوم سے چہرے کے ساتھ قومی زبان اردو کو توڑ مروڑ کر انگریزی لب و لہجے میں بولنے اور اپنے نانا اور اپنی امیّ کی تقریر کے طرزِ کو اپنانے والے بلاول بھٹو زرداری بھی اُچھلتے کودتے اپنی غیر سنجیدہ (مگر حسبِ معمول کسی اور کی لکھی ہوئی غیر سنجیدہ تقریر کرنے کے بعد )قومی سیاست کے میدان میں کچھ ایسے اُترے ہیں کہ اِن کی تقریر اور اِن کے لب و لہجے سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری جیسے لوگ بھی قومی سیاست میں حصے لینے لگے۔
پھر مُلکی سیاست اور قوم و مُلک کا تو اللہ ہی حافظ ہے اِنہیں سیاست میں آنے سے مُلکی سیاست، معیشت، وقار و بقاء وسا لمیت اور پہلے سے دگرگوں ہوتی مُلکی خودمختاری کو خطروں سے دو چار ہونا سو فیصد ممکن ہو جائے گا اور آج جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز و زرداری دونوں ایک ہو گئے ہیں۔ اگرچہ میں شہدائے کارساز کی چھٹی برسی کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نومولود چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا بچکانا پن مگر اِس میں اِن کی کی گئی بھڑکیلی و غیر سنجیدہ تقریر کا تذکرہ تو بعد میں پوائنٹ ٹو پوائنٹ کروں گا مگر اِس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری یہ تو بتائیں کہ اِنہیں ایسی غیر سنجیدہ اور بے ہنگم تقریر اِن کی پارٹی کے کس سینئر جیالے اور عہدیدار نے لکھ کر دی تھی، اِس تقریر میں جہاں بلاول بھٹو زرداری کا بچکانہ پن جھلک رہا تھا تو وہیں اِس تقریر کو لکھنے والے پی پی پی کے کسی بزرگ سیاستدان کے سینے میں اُبلنے والے لاوے کو بھی باہر نکالنے کا موقع ملا جو اِن کے سینے میں موجودہ حکمران جماعت (ن) لیگ، اور اپنی سابق حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اور پل دو پل سونامی کی تڑی لگانے والی جماعت پی ٹی آئی سے متعلق خدا جانے کب سے پھٹنے کے انتظار میں تھا۔
Bilawal Bhutto Zardari
آج بلاول بھٹو زرداری کے جس خطاب کو پی پی پی کی قیادت جھوم جھوم کر حقائق پر مبنی اور اپنے آئندہ کے ایجنڈے سے تعبیر کر رہی ہے مگر آج درحقیقت پاکستانی قوم اور محب وطن سیاستدان بلاول بھٹو زرداری کے اِس خطاب کو پی پی پی کی احساس محرومی اور مایوسیوں کے اعتراف کا گمان تصور کر رہے ہیں اَب یہ اور بات ہے کہ عوام کی اِس اکثریت رائے کو پی پی پی والے کچھ اور رنگ دے کر اپنا دل بہلانے کے لئے کسی اور ڈرامے کی صورت میں پیش کریں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا خطاب غیر سنجیدہ اور حقائق کی توہین کرنے کے مترداف ہے آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں مُلک جن مسائل اور اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے دو چار ہے، اِن سے نبرد آزما ہونے کے لئے مُلک اور قوم کو صاف و شفاف انتخابات سے سنجیدہ اور مدبرانہ سوچ رکھنے والی ایسی قیادت اور حکمرانی کی ضرورت ہے جو اپنی اہلیت اور قابلیت سے مُلک اور قوم کو مسائل کے دلدل اور اپنے پرائے کی سازشوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی طرح کسی غیرسنجیدہ موروثی سیاستدان یا حکمران کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو اپنے پرکھوں کے کارناموں پر اپنا سیاسی قد اُونچا کرے اور مُلک و قوم کی تقدیر سے کھیلے اور اِن کو زندہ در گو کر دے۔ آج ساری پاکستان قوم یہ سوچ رہی ہے کہ جب تک پی پی پی اقتدار میں رہی وہ اپنے دورِ اقتدار میں تو سانحہ کارساز کے ماسٹر مائنڈ کا سراغ نہیں لگا سکی اور آج جب پی پی پی والوں کے ہاتھوں سے حکمرانی کی چڑیا نکل کر ن لیگ کے ہاتھ آ گئی ہے تو آج سانحہ کارساز کی چھٹی برسی کے موقع پر پی پی پی والے اپنی سیاست چمکانے اور اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے سانحہ کارساز کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے لکیر پیٹ رہے ہیں اِن کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے، اگرچہ آج شہدائے کارساز کی چھٹی برسی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نومولود چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کیا جانے والا غیرسنجیدہ خطاب اپنے اندر بے شمار خدشات اور مخمصوں کے ساتھ انگنت سوالات بھی لئے ہوئے ہے، جو آنے والے دنوں میں کھل کر سامنے آئیں گے اور شاید جب اِن کا جواب پی پی پی کے پاس بھی نہ ہو۔
Asif Ali Zardari
اَب ذرا بات ہو جائے پی پی پی کے نومولود چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے اُس غیر سنجیدہ خطاب کی جس میں اُنہوں نے اپنی آسینیں چڑھاتے ہوئے اپنے مخصوص لب و لہجے کے ساتھ مذہب کے ٹھیکداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ”2018 کے عام انتخابات میں آصف علی زرداری جیالوں کی کمان اور میں (بلاول بھٹو زرداری) تیربنوں گا، اِن کا اِس موقع پر یہ کہنا تھا کہ ”یعنی ہم باپ بیٹے مل کر شیر کا شکار کریں گے جو غریبوں کے خون سے اپنا پیٹ بھرتا ہے، اور بلاول نے اپنے اِس خطاب میں خیبرپختونخواہ سے باکثرت اُٹھنے والی سونامی کی آواز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوام کو سونامی سے بچائیں گے، اور اِسی کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری نے ایک مخصوص انداز سے یہ بھی کہا کہ ” پاکستان 1947 میں آزاد ہوا لیکن کراچی آج بھی لندن کی کالونی بنا ہوا ہے، فون پر چلنے والی پتنگ کو کاٹ دیں گے۔
پی پی پی کے نومولود چئیرمین نے اپنے بچکانہ خطاب میں ایسے بہت سے غیرسنجیدہ اور غیر ضروری الفاظ ادا کئے جو کسی بھی لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی جیسی ایک مُلک گیر اور سنجیدہ پارٹی کے کسی چئیرمین کے معلوم نہیں دیتے ہیں کیوں کہ کچھ بھی ہے آج بھی پی پی پی اپنا ایک منفرد وقار اور مورال رکھتی ہے، اگر آئندہ بھی بلاول بھٹو زرداری جیسے کسی نومولود چئیرمین کی جانب سے ایسے غیرسنجیدہ خطابات ہوتے رہے تو وہ دن کوئی دور نہیں جب پی پی پی کا اصولوں اور ضابطوں پر قائم برج زمین بوس جائے۔ لہذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ پی پی پی کی انتہائی سنجیدہ قیادت جو اپنے کسی اندرونی اختلافات کی وجہ سے پسِ پردہ چلی گئی ہے وہ سامنے آئے اور پی پی پی کی قیادت سنبھالے اور اِسے بچائے۔ کیوں کہ اگر مولو یوں، شیر والوں، سونامی اور پتنگ والوں نے اِنکی تقریر کو سنجیدہ لے لیا تو بلاول سمیت پی پی پی والوں کو بھی جواب دنیا بھاری پڑ جائے گا۔ (ختم شُد)
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com