2013 کے الیکشن کو چارہ ماہ ہونے کے بعد بلا آخر بلوچستان حکومت کا فارمولہ کامیاب نتائج میں پہنچ گئی الیکشن کے بعد محکموں اور وزیراعلیٰ کے فارمولہ پر کامیاب اُمید وار اں اپنے آپ کو حکومت بنانے میں آگے آگے آنے کیلئے تیار کر دیا مگر ویراعلیٰ کے سیٹ پر ہی وزیراعظم نواز شریف کو مسائل پیش آنے لگے کیونکہ بلوچستان میں الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والے تین جماعت سامنے آئے اسی وجہ سے حکومت نہیں بن پائے جس میں مسلم لیگ (ن) نیشنل پارٹی اور پشتونخواء میپ تینوں جماعت کی کامیابی کی وجہ سے چار ماہ تک نہیں بنا سکے۔
وزیراعلیٰ کیلئے کافی کشمش کشمش ہوئی خیر حق تو مسلم لیگ (ن) کا ہی تھا کہ انہی کے جماعت سے وزیراعلیٰ بلوچستان ہونا چائیے تھا اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنی جماعت سے پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری کو وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے فیصلہ کیا تھا مگر تین جماعتوں کی وجہ سے فیصلہ نہ ہو سکا پھر وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے وزیرعظم نواز شریف نے نیشنل پارٹی کی سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو منتخب کرنے کا فیصلہ کیا پھر بھی کچھ دنوں تک وزیراعلیٰ کیلئے فیصلہ کرنے میں تاخیر ہوہی آخر کار میاں نواز شریف اور نواب ثناء اللہ خان زہری نے بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی سیٹ کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بلوچستان نامزد کیا بلوچستان اسمبلی میں بھاری اکثریت سے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزریراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوا بطور وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وزریراعلیٰ ہے مگر چاہ ماہ سے وزارتوں کا ہی مسئلہ پیش ہوا تینوں جماعتوں میں محکموں کی تقسیم پہ فیصلہ نہ ہو سکا۔
بلوچستان کے عوام اُس دن کا انتظار میں تھا کہ کب محکموں کی تقسیم کا فارمولہ تہہ پائے گی کہ تمام محکموں میں عوامی کام ہونا شروع ہو جائے گا سیکٹرٹیریٹ میں مسٹری آفسوں میں رونق بال ہو جائیگی آخر کار چاہ مہینے کے طویل عرصے نے اپنا سفر تہہ کر دیا منگل 14اکتوبر 2013کو بلوچستان کی کابینہ میں توسیع کر دی گئی۔ گیارہ نئے وزراء نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھالیا جبکہ تین مشیروں کا اعلان بھی کر دیا گیا، پشتونخوا میپ کے دو مشیروں کا اعلان نہ ہوسکا۔ توسیع کے بعد کابینہ کے ارکان کی تعداد ستر ہ ہوگئی۔
Abdul Malik Baloch
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت عوام کے مسائل کے حل کی جانب درست سمت میں پیش رفت کررہی ہے چار مہینے کے طویل عرصے کے بعد بلوچستان کابینہ تشکیل پاگئی۔
گورنر ہاؤس کوئٹہ میں منعقدہ تقریب میں گیارہ نئے وزراء نے حلف اٹھا لیا حلف اٹھانے والوں میں مسلم لیگ ن کے چار، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کے تین تین اور ( ق) لیگ کا ایک وزیر شامل ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نوابزادہ جنگیز مری، سردار سرفراز چاکر ڈومکی، میر سرفراز بگٹی، میراظہارخان کھوسہ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے شیخ جعفرخان مندوخیل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نواب ایاز خان جوگیزئی، سردار مصطفی خان ترین، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے سردار اسلم بزنجو، رحمت صالح بلوچ اور مجیب الرحمن محمدحسنی شامل ہیں۔ تقریب میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمدجمالی، سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری، صوبائی وزرائ نواب محمدخان شاہوانی، عبدالرحیم زیارتوال، چیف سیکریٹری بلوچستان، آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس سمیت مختلف ارکان قومی و اسمبلی ، سینیٹر ز اور دیگر حکام نے شرکت کی۔یاد رہے کہ تین رکنی کابینہ نے 9 جون کو حلف اٹھایا تھا تاہم مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مابین اختلافات کے باعث کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہوئی۔
PML N
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کی وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد کابینہ کی تشکیل کی راہ میں پائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کیا گیا۔ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کابینہ ڈویژن نے مسلم لیگ (ن )،( ق) لیگ اور نیشنل پارٹی کے صوبائی وزراء کے قلمدانوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق مسلم لیگ ن نواب ثناء اللہ زہری مواصلات و تعمیرات، مائنز اینڈ منرل اور انڈسٹریز کے وزیر، اظہار خان کھوسہ خوراک اور ترقی نسواں کے صوبائی وزیر ہوں گے۔ نواب محمد خان شاہوانی ایس اینڈ جی اے ڈی کا قلمدان سنبھالیں گے جبکہ سرفراز بگٹی صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور، جیل خانہ جات اور ڈیزاسسٹر مینجمنٹ کے صوبائی وزیر ہوں گے۔
نوابزادہ جنگیز مری کو آبپاشی اور توانائی کے محکموں کا قلمدان تفویض کیا گیا۔ جعفر مندوخیل کو ریونیو، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ٹرانسپورٹ کے قلمدان ، سردار سرفراز ڈومکی محنت و افرادی قوت، غیر رسمی تعلیم اور سماجی بہبود کے صوبائی وزیر ہوں گے۔ سردار محمد اسلم بزنجو صوبائی وزیر زراعت جبکہ رحمت بلوچ صوبائی وزیر صحت ہوں گے۔ مجیب الرحمان کو اقلیتی امور، انسانی حقوق، کھیل، ثقافت، بہبود آبادی، امور نوجوانان، آرکائیوز، لائبریریز، میوزیم اور سیاحت کے محکمے تفویض کئے گئے ہیں۔ جبکہ تین وزیراعلیٰ بلوچستان کے تین مشیروں کا اعلان بھی کر دیا گیا اس سلسلے میں ایس اینڈ جی اے ڈی کابینہ ڈویڑن نے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔نوٹیفکیشن کے مطاق مسلم لیگ ن کے میر عبدالماجد ابڑو بین الصوبائی رابطہ، زکواة و عشر، حج و اوقاف کے محکموں کے لئے وزیراعلیٰ کے مشیر جبکہ میر اکبر آسکانی ماہی گیری اور پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے مشیر ہوں گے جبکہ نیشنل پارٹی کے خالد لانگو وزیراعلیٰ مشیر برائے خزانہ کے طور پر کام کریں گے۔ گورنر ہاؤس میں منعقدہ کابینہ کی تقریب حلف برداری کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ کابینہ کی توسیع کے بعد حالات کو بہتری کی جانب لے جانے میں مدد ملے گی۔
مثبت نتائج سب کے سامنے آئیں سابقہ دور حکومت میں اغواء برائے تاوان کے واقعات اور ہمارے تین ماہ کی حکومت کے دوران ہونے والے جرائم کی شرح کو بھی مدنظر رکھا جائے بہتری آرہی ہے اور مزید بہتری لائیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ میڈیا تنقید ضرور کرے اور ہم تنقید کو بسروچشم قبول بھی کریں لیکن تنقید کے ساتھ ساتھ حالات کا جائزہ بھی لیا جائے گزشتہ دور حکومت میں اغواء برائے تاوان کے واقعات میں بہت زیادہ تیزی آرہی تھی جبکہ ہمارے تین ماہ کی حکومت کے دوران اس پر کافی حد تک قابو پایا گیا اگر اس کی شرح فیصد نکال لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کی قیادت کا فیصلہ ہے جو نام دیئے گئے ہیں وہ وزیر ہیں جو لوگ آئے بھی ہیں تو وہ اپنی اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کے مطابق چلیں گے کوئی بھی میرے خیال میں پارٹی پالیسی کے برخلاف نہیں جائے۔ بلوچستانی عوام کے دلوں میں یہ تھا کہ کب اور کس وقت حکومت مکمل بن پائیگی خیر حکومت تو بہ مشکل مکمل ہو گی خیر اسی میں تھا کہ چاہ مہینے میں حکومت مکمل ہوئی جیسا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اپنی سربراہی میں وزیرئوں سے اُمیدیں ہیں اسی طرح عوام کو بھی اُمید ہے کہ اپنے ووٹ دینے کے بعد یہی اُمید کرتے ہیں کہ حکومت بلوچستان، بلوچستان کے عوام کیلئے نیک خوش مزاج اور عوامی حکومت ہو جائے عوام کو کافی اُمیدیں حکومت سے وابستہ ہیں کہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کرئے گی۔