پاک ہند تعلقات چاہے کسی بھی سطح پر ہوں، ان پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوتی ہیں۔ دونوں ممالک کے کھیل، تجارت اور دیگر تعلقات پوری دنیا کے لئے اہم موضوعات ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے اقدامات سے کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمنی کی برف پگھل جائے گی اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا صاف و شفاف چشمہ رواں دواں ہوجائے گا۔ مگر بدقسمتی سے یہ احساس دیرپا نہیں ہو پاتا کہ کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ سامنے آتا ہے، جس کے بعد پھر سے منافرت اور عدم اعتماد کی گرم گرم لپٹیں اُٹھنے لگتی ہیں، طعن و تشنیع، دفاعی انداز میں بحث و مباحثہ اور بیان بازی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
یوں دونوں ملکوں کے اربابِ اقتدار وہیں کے وہیں پہنچ جاتے ہیں، جہاں سے چلے تھے ۔ ابھی تازہ خبر ہی ہے کہ امریکہ میں دونوں ملکوں کے وزیراعظم نے ملاقات میں کنٹرول لائن پر بلا جواز فائرنگ کا سلسلہ بند کرایا جائے گا۔ مگر کل سے پھر بھارتی فوجی گولہ بارود اگلنے میں مصروف ہیں جس میں اب تک دو شہری اور ایک چناب رینجرز کا جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح بھارتی فوجیوں نے پھر سے بلا اشتعال و بلا اجازت (اپنے حکمران کے) گولہ بارود کے چلانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اگر پاک فوج کی جانب سے جوابی کاروائی نہ ہو تو ان کی توپیں خاموش نہیں ہوتیں۔ جیسے ہی پاک فوج کی جوابی کاروائی عمل میں آتی ہے یہ لوگ گیڈر کی طرح بیرکوں اور خندقوں میں گھس جاتے ہیں۔ بس اتنی ہی ان کی شان ہے۔
پہلے بھی کئی محاذوں پرپاک فوج کے جوانوں نے انہیں شکستِ فاش دے رکھا ہے اور عزم جواں ہے کہ مصداق آئندہ بھی انہیں منہ کی ہی کھانی پڑے گی اس لئے ہوشمندی ضروری ہے اور عقل کے ناخن بھی۔ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے اور ایک دوسرے کے عزیز و اقارب کے دونوں ملکوں میں بسنے کی وجہ سے ہند و پاک میں دوستی کے رشتے کا پروان چڑھنا بے حد ضروری عمل ہے۔ دونوں ملکوں کے حکمرانوں اور عوام کو چاہیئے کہ ملنساری کا فلسفہ اپنائیں اور مل جل کر رہنے اور دوستی کے بندھن کو مضبوط بنانے پر زور دیں تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدگی سے نکل کر خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے۔
India Pakistan Border
ہند و پاک کی خلیج باٹنے کے لئے بارہا اقدامات ہوئے اور خوش کن نتائج کے سامنے آنے کا احساس بھی ہوا، حالیہ دنوں میں ہند و پاک دوستی کے تعلق سے جو اقدامات ہوئے وہ بھی فی الواقع خوش آئند ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات اور قابلِ قدر گفتگو، دونوں وزیر اعظم کی امریکہ میں ملاقات، کرکٹ کی بحالی پر بات چیت، دیگر تجارتی تعلقات اور ویزا قوانین میں نرمی، یہ سب ایسے واقعات ہیں جن سے احساس ہی نہیں بلکہ اُمید ہو گئی تھی کہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا، مگر اس کے باوجود آفتِ نگہانی کے طور پر کل پھر نکیال، راجپڑ، اور سیالکوٹ سے منسلک دیگر سیکٹر پر بھارتی فوجیوں کی بلا اشتعال فائرنگ سے دو شہریوں کا شہید کر دیا جانا ، کسی بھی طرح سود مند نہیں ہے۔ پاک و ہند سرحد پر امن کے دیئے روشن رکھنے کے لئے جو باہمی عہد و پیمان ہوئے، ان کے مطابق یہ واقعہ حد رجہ افسوس ناک ہے اور دوستی کی فضا کو آلودہ کرنے والا بھی۔ کارگل کی لڑائی بھی بھارتی فوجیوں کی بلا ضرورت مداخلت کی وجہ سے ہی رونما ہوئی، یہ بات الگ ہے کہ اس میں پاک افواج نے کامیابی حاصل کی اور ہند کی فوجوں کو منہ کی کھانی پڑی۔باہمی عہد و پیماں کی خلاف ورزی کا یہ واقعہ کوئی پہلی دفعہ ہی رونما نہیں ہوا ہے بلکہ ہندوستانی شدت پسند فوجیوں اور سیاست کے ارباب کی جانب سے پاکستان میں مداخلت کی درجنوں کوششیں ہو چکی ہیں۔
سرحد کا معاملہ تو مشترکہ ہے، باہمی عہد و پیماں کے ڈور سے جُڑا ہے اس کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنا کسی بھی نظریہ سے درست نہیں ہے۔ چہ جائے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے میٹھی زبان میں سمجھایا تھا کہ پاکستانی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام ہندوستان کے ساتھ دوستانہ رشتے کے خواہش مند ہیں، جس کے لئے دونوں حکومتوں کو مضبوط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاک و ہند کے درمیان تجارتی رشتہ بھی بحال ہو، تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کو سمجھنے ، جاننے کا موقع مل سکے، اس کے ساتھ ساتھ پچھلے دنوں دونوں ملکوں نے بینک کی برانچ کھولنے کا بھی اشارہ دیا تھااور انڈین اسکول آف بزنس اور کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آ بزنس ایڈمنسٹریشن نے بھی معاہدہ کیا تھا۔ ان تمام پیش رفت کے ساتھ ساتھ کرکٹ میچز کی بحالی کا مسئلہ بھی حل ہوا اور اس میں پیشِ رفت ہماری ہی طرف سے ہوئی کہ پاکستانی ٹیم نے ہندوستانی سرزمین پر میچز بھی کھیلے، یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ایک دوسرے کو قریب کر رہی ہیں ۔ ان معاملوں کے آگے بڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی دونوں ممالک دوستی کا ہاتھ ملانا چاہتے ہیں مگر فوجیوں کی ہلاکت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ اس طرح کے واقعات سے بد مزگی پیدا ہو گی اور امن کی تمام معاملات کو نقصان پہنچے گا۔ ہندوستان کے اعلیٰ حکام اور اربابِ سیاست کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی دوستی کے تعلق سے نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر اُن کے کردار واضح کرتے ہیں کہ ان کے قول و عمل میں تضاد ہے، کیونکہ اگر ان کے اقوال و افعال میں یکسانیت ہوتی تو وہ باہمی عہد و پیمان کے ایفا میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ، ہر سطح پر ہم نے ہی پہل کی مگر ہند نے ہر سطح پر وعدہ خلافی دکھلائی۔
کیا سابق صدر پرویز مشرف یاد نہیں جب انہوں نے دنیا بھر کو من موہن سے ہاتھ ملا کر حیران کر دیا تھا۔ کیا یہ دوستی کی طرف پیش قدمی نہیں تھی۔ کیا نواز حکومت نے من موہن کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی، کیا یہ بھی دوستی کی طرف پیش قدمی نہیں تھی، مگر ہندوستان نے ہمیشہ سے ہی” سامنے کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ اور کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ ہماری نظر میں ہندوستان کا سنجیدہ نہ ہونا دوستی کی مٹھا کے لئے زہرسے کم نہیں، اگر وہاں کے حکام سنجیدہ ہوتے تو اپنی فوج کو سنجیدگی کا مظاہرہ اور ایفائے عہد کے لئے مجبور کرتے۔ بین الاقوامی برادری کہتی رہی ہے کہ ہندوستان پاکستان کے صوبے بلوچستان میں براہِ راست در اندازی میں ملوث ہے مگر اس طرف وہ توجہ نہیں دیتے اور الزامات کا سلسلہ پاکستان پر ڈالتے رہتے ہیں۔
Manmohan Singh
من موہن جی آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ ” تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے” کہیں آپ ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے چکر میں پڑ گئے تو نقصان آپ ہی کا ہو سکتا ہے۔ خدا اُس دن سے دونوں ملکوں کے عوام کو بچائے۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا، دونوں ممالک کو غور کرنا چاہیئے کہ آخر اچھے مواقع پر ناخوشگوار حادثات کیوں ہوتے ہیں؟ یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ مداخلت اور عہد و پیمان شکنی کے واقعات کے بعد ہند ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس بلا جواز بارود برسانے کا سلسلہ مکمل طور پر کیوں نہیں روکتا۔ تُو تُو، میں میں، سے کچھ نہیں ہونے والا، نہ ہی دفاعی انداز میں پلہ جھاڑنے کی کوشش سے کچھ ہونے والا ہے۔
نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلے گا کہ دوستی کی مٹھاس میں کھٹائی کی آمیزش ہونے لگے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک مل بیٹھیں اور جائزہ لیں کہ کہاں پر کوتاہی سر زد ہوئی ہے۔ اپنے اپنے عہد و پیمان کا پاس و لحاظ رکھیں۔ پاک و ہند کے عوام کو اب شاید اچھی طرح یہ احساس ہوگیا ہے کہ عہد وپیمان شکنی یا بے جا مداخلت سے دونوں پڑوسی ملکوں میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا عوام کا یہ احساس واقعی خوش آئند ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے لیڈران بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں۔ کاش ہند کو یہ بات سمجھ آجئے کہ کہ عہد و پیمان کو توڑنا ملکی مفاد کے لئے زہر ہے۔