عظیم باپ کی عظیم بیٹی

Women Islamic University

Women Islamic University

پاکستان میں پہلی ”خواتین اسلامی یونیورسٹی” قائم کرنے اور خواتین میں تعلیمی و تبلیغی انقلاب برپا کرنے والی عظیم حوصلوں، جذبوں اور ولولوں سے گندھی مجاہدہ کے احوالِ زیست میری یہ بیٹی اسی طرح خواتین میں تبلیغ کرے گی جس طرح میں مردوں میں کر رہا ہوں۔” یہ جملہ اپنی عظیم بیٹی کے لیے اسلامی دنیا کے اس عظیم عبقری مبلغ کا ہے کہ دنیا کے بیشتر مقامات پراس کی جد و جہدنے لوگوں کو حیاتِ تازہ کا سراغ دلایا، ہزاروں اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہوئے اورنہ جانے کتنوں نے اسلام کے متعلق اپنی سوچوں کا دھارا تبدیل کیا۔ عظیم باپ مبلغ اسلام خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی اس عظیم بیٹی کا نام مخدومۂ ملت ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی ہے۔ یہ عظیم خاتون ٢٨ جون ١٩٣٥ میں میرٹھ یوپی میں پیدا ہوئیں اور ٧ اگست ٢٠١٣ء کو کراچی میں آسودۂ خاک ہوگئیں۔ ان ٧٨ برسوں میں اس جلیل القدر خاتون نے وہ کا رہا ہیں نمایاں انجام دیے جو تاریخِ اسلامی میں گنج ہاپے گراں مایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر بڑھا پے تک اس عظیم خاتون نے وہ تعلیمی، مذہبی، تبلیغی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور فکری مہمات سر کیں کہ برصغیر کی تاریخ قرون ِ اولی کی باہمت خواتین کی داستان سے مہک اٹھی۔ وہ اسم بامسمیٰ ثابت ہوئیں۔ میرٹھ میں جب ان کی ولادت ہوئی تو ان کے عظیم والد خانۂ کعبہ میں تھے، والدِ گرامی نے خط پڑھ کر اس بیٹی کی عمر اور اقبال مندی کے لیے دعا کی اور دنیا نے دیکھا کہ اس عظیم خاتون کی پوری زندگی پر خانۂ کعبہ کے سائے میں کی جانے والی دعائوں کی پر چھائیاں پڑی رہیں اور اس خاتون کی پوری زندگی اس دعا کی تجسیم بن کر سامنے آئی۔ ابھی وہ پرائمری درجات ہی میں تھیں کہ تقسیمِ ہند کا سانحہ پیش آیا چنانچہ انہیں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی ہجرت کرنی پڑی۔ یہاں آکر انہوں نے ایم، اے کیا اور بی ایڈکی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں خواتین میں تبلیغِ دین کرنے کا بیڑا سب سے پہلے اس خاتون نے اٹھایا۔

اس کے لیے انہوں نے ١٩٥٩ میں ”خواتین اسلامی مشن” کی طرح ڈالی جو ان کی غیر معمولی جد وجہد اور خداداد جذبۂ دین کی بدولت دنیا کے آٹھ ممالک میں کام کرنے لگا، امریکہ، کنیڈا، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، ماریشس اور لیبیا میں ”خواتین اسلامی مشن” کی شاخیں قائم ہوئیں اور یہ وقتاً فوقتاً میں تبلیغِ اسلام کے لیے وہاں تشریف لے جاتی رہیں۔ والد صاحب کے وصال( ١٩٥٤ئ) کے بعد انہوں نے پہلی تقریر خواتین میں کی تو بیشتر خواتین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس واقعے سے ان کے اندر اعتماد جاگا اور پھر انہوں نے تبلیغ اسلام کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور جب تک تارِحیات نہیں ٹوٹا وہ دینی کاموں میں ایسے منہمک رہیں گویا کام ان کے لیے ہے اور وہ کام کے لیے۔ مذکورہ ممالک میں خواتین اسلامی مشن کی شاخوں کے زیر اہتمام اس عظیم خاتون کی سرپرستی ونگرانی میں طالبات میں اسلامی تعلیم دی جاتی اور کراچی کے مختلف مقامات میں درس قرآن کی محفلیں منعقد ہوتیں، یہ سلسلۂ خیر آج بھی جاری ہے۔ یہ ساری درس گاہیں غریب بستیوں میں ہیں تاکہ غربت کے مارے لوگ اپنی بچیوں کو دینی تعلیم دلانے سے محروم نہ رہ جائیں۔

خواتین اسلامی مشن پاکستان کے زیر اہتمام مقدس مہینوں میں خواتین کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں اور ١٠، ١١ ربیع الاول شریف کو طالبات کے درمیان نعتیہ اور تقریری مسابقوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں کراچی کے تمام کالج اور یونیورسٹی کی طالبات شرکت کرتی ہیں۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی برصغیر کی شاید پہلی ایسی قابل فخر اور لائق تقلید خاتون ہیں جنہوں نے ایسے گراں قدر کام کیے جو ان کی زندگی کے اختتام کے بعد بھی پوری توانائی کے ساتھ ان کی زندگی کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان کے مذہبی افکار میں جمود کا پڑاؤ نہ تھا بلکہ وہ کھلے دل و دماغ کی خاتون تھیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور اسسٹنٹ انسپکٹرس آف اسکول کی حیثیت سے تین سال ملازمت کر چکی تھیں۔ وہ پاکستان کی اسمبلی میں خواتین کی نشست میں ممبر بھی رہیں۔ ١٩٧٠ء میں وہ پاکستان کی واحد خاتون تھیں جنہوں نے پردے میں رہ کر الیکشن میںحصہ لیا اور خواتین میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے جمعیت المسلمات قائم کی۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

اس کے بعد انہوں نے اس تنظیم کو جمعة علماے پاکستان کے شعبہ خواتین میں ضم کر دیا اور اس کے شعبۂ خواتین کی تا حیات مرکزی صدر رہیں۔ ان انتخابات میں ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی نے پاکستانی خواتین کے حقوق منوانے کے لیے پاکستان کے اہم ترین سیاست دانوں نواب زادہ نصر اللہ خاں، نور الامین، اصغر خاں کے علاوہ دیگر اہم سیاسی لیڈران سے ملاقاتیں کیں اور خواتین کے متعلق اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا۔ آپ کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل کی خاتون ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے آپ نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی اور انہیں اس بات کا قائل کیا کہ مسلمان ممالک کا آزاد ٹی وی چینل قائم کیا جائے تاکہ اسلام کے خلاف کی جارہی ہر زہ سرائیوں کا مسکت جواب دیا جا سکے۔ آپ کی قائم کردہ” خواتین اسلامی مشن ”صرف” تبلیغی جماعت” بن کر کام نہیں کر رہی ہے بلکہ انہوں نے خواتین کے تحفظ وترقی کے لیے ہر ممکن فلاحی، تعلیمی، سیاسی اور سماجی کام کیے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:٭ کراچی جیل میں خاتون قیدیوں کی امداد کی جاتی ہے۔ انہیں چادر اور طالبات کو اسٹیشنری فراہم کی جاتی ہے۔

اشیاے خوردنی سے بھی ان کی ضرورت پوری کی جاتی ہے نیز رمضان المبارک کے مہینے میں سحری وافطار میں کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ غریب قیدی خواتین کی زرِ ضمانت پر رہائی بھی خواتین اسلامی مشن انجام دیتی ہے۔٭ نادار اور مستحق غریب بچیوں کی شادیوں کے لیے جہیز کا انتظام بھی یہ تنظیم اپنے خصوصی فنڈ سے کرتی ہے اور ہر سال تقریباً ١٠٠ بچیوں کو جہیز فراہم کر کے ان کی شادیاں کراتی ہے۔٭ کراچی کے نواحی علاقے شادمان ٹاؤن میں خواتین اسلامی مشن نے فری ڈسپنسری بھی قائم کر رکھی ہے۔ یہاں سے روزانہ تقریباً ١٠٠ مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔٭ نابینا طلبہ، یتیم بچے بچیاں اور افلاس کی ماری خواتین کی امداد بھی یہ” خواتین اسلامی مشن ”حسب بساط سر انجام دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے کام ڈاکٹر فریدہ صاحبہ کی زیر نگرانی انجام پاتے رہے ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے ڈاکٹر صاحبہ نے ہی خواتین کے لیے علاحدہ یونیورسٹی قائم کی۔

انہوں نے ١٩٧٠ء میں الیکشن میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ملک کے ہر صوبے میں خواتین کے لیے علاحدہ یونیورسٹی کا قیام ہوتا کہ وہ مکمل حجاب کے ساتھ دینی وعصری تعلیم حاصل کرکے ملک کی خدمت کر سکیں اور دینِ اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکیں۔ آپ کی جد وجہد کامیاب رہی اور ١٩٩٠ء میں آپ نے گلشن اقبال کراچی میں اس اسلامی یونیورسٹی کا قیام کیا۔ اس کا نصاب چار اور چھ سال پر مشتمل ہے۔ اس میں اسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم کی بھی تعلیم دی جارہی ہے۔ نیز عالمہ ومبلغہ کا کورس بھی ہے، اس کورس میں ایڈمیشن کے لیے امریکہ، کنیڈا کے علاہ یوروپی اور افریقی ممالک سے بھی طالبات آتی ہیں۔ ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی صاحبہ کو پاکستان کی پہلی خواتین اسلامی یونیورسٹی کی پہلی وائس چانسلر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان مکاتب اور اسکولوں کے لیے بھی کام کیا جو فنڈ کی کمی اور حکومت کی بے توجہی کا شکار تھے۔ ان اسکولوں میں طرح طرح کے مسائل تھے، اساتذہ کا فقدان، خستہ حال عمارتیں، فرنیچر کی کمی وغیرہ۔

ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے مشن کے زیر اہتمام ان عمارتوں کو گود لے کر ان کا تعلیمی اور ترقیاتی نظام درست کیا، ان کا تعلیمی معیار بڑھایا اور طلبہ وطالبات کو مفت کتابیں اور یونیفارم فراہم کرکے ان اداروں کو حسنِ انتظام اور حسنِ تعلیم میں معیاری اداروں کے دوش بدوش کھڑا کر دیا۔ بحمد اللہ ڈاکٹر صاحبہ کی حد درجہ مساعی سے آج یہ تعلیمی ادارے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے انہیں جدید سہولیات سے لیس کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ڈاکٹر صاحبہ پاکستان میں مختلف امتیازی مناصب پر فائز رہیں۔ اسلامی یونیورسٹی برائے خواتین کی وائس چانسلر اور قومی اسمبلی کی ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ رکن سنڈیکیٹ کراچی یونیورسٹی، رکن سندھ زکوٰة کونسل، رکن نیشنل کمیشن براے منصبِ خواتین اور صدر اسلامی مشن بھی رہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ نے پردے میں رہ کر یہ سارا کام کیا اور ملک وبیرونِ ملک اپنی بے پناہ خدمات کا لوہا منوایا۔ تصنیفی خدمات میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں ان کی کئی کتابیں کناڈا سے غالباً خواتین اسلامی مشن ٹورنٹو کے زیر اہتمام شائع ہوئیں۔ ان کے علاوہ ”دینیات” (انگریزی اور اردو زبانوں میں) لکھی گئی اور اس میں تصاویر کی مدد سے بچوں کو وضو، نماز، روزہ، حج، زکوٰة جیسے اہم ترین مسائل یکجا کیے گئے ہیں۔

Zulfiqar Ali Bhutto

Zulfiqar Ali Bhutto

”چالیس مشہور احادیث” میں مرد و عورت کے روز مرہ کے مسائل احادیثِ نبویہ کی روشنی میں جمع کیے گئے ہیں اور ایک کتاب ”خواتین کے فقہی مسائل” ہے جس میں خاص کر عورتوں کے مسائل یکجا ہیں۔ یہ کتابیں ہندوستان سے اب تک شائع نہیں ہو سکی ہیں، ناشرانِ کتب کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور خاص کر مبلغِ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی کے اسم گرامی کے منسوب ملک کے عظیم تعلیمی ادارے ”دارالعلوم علیمیہ جمد اشاہی بستی، یوپی ”کے ذمے داران کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات سے ہندوستان کے علمی حلقے متعارف ہوں اور خواتین کو دینی کام کرنے کی تحریک مل سکے۔ ڈاکٹر فریدہ مرحومہ کی پوری زندگی نے ثابت کر دیا کہ اگر باہمت عورت کوئی کام اسلامی تعلیمات میں ڈھل کر انجام دینا چاہے تو مخالفتیں اس کے جذبوں، حوصلوں اور ولولوں کے ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش ہو سکتی ہیں۔

پرویز مشرف، ذوالفقار علی بھٹو سمیت دیگر سیاسی لیڈروں کے درمیان پارلیمنٹ میں ممبر کی حیثیت سے شریک ہونا اور اپنی سیاسی اہمیت منوانا کوئی آسان کام نہ تھا مگر اس خاتون نے اپنے عظیم کردار، غیر معمولی صلاحیت اور بے پناہ جذبۂ دینی کی بدولت یہ ثابت کر دکھایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خاتون اگر چاہ لے تو کیا کچھ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ عملی اقدام کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پردہ عورت کی ترقی میں رکاوٹ بالکل نہیں ہے لہٰذا جو لوگ اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے عورت کو پردے کا حکم دے کر ظلم کیا ہے اور پردے نے عورت کو گوشۂ خمول میں بیٹھنے پر مجبور کیا ہے وہ سخت نادان ہیں، انہیں حقیقت پسندی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی یہ عظیم جد وجہد اسی الزام کا جواب ہے اور ہمارے خیال میں اس واہی اور بے بنیاد اعتراض کا اس سے بہتر اور کوئی عملی جواب ہوہی نہیں سکتا اور کیوں نہ ہو آخر وہ بیٹی کس کی تھیں؟ ڈاکٹر صاحبہ کی کتابِ زندگی پڑھ کر ہر درد مند عورت ان کے نقوشِ پا پر چلنا اپنی سعادت سمجھے گی۔ یہاں ہمیں ایک بات اور ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب خاندان پڑھا لکھا ہو، ذہن وسعتِ فکری سے مالا مال ہو اور دل میں جذبہ ہو تو ایسے ہی افراد جنم لیتے ہیں۔

دنیا میں بہت کم افراد ایسے ہیں جو ایسے عظیم المرتبت خاندان میں پیدا ہوئے ہوں اور اگر پیدا ہوئے بھی ہوں تو اس عظیم علمی و روحانی وراثت کے امین و حق دار بننے کا شرف بھی حاصل کیا ہو۔ اس تناظر میں دیکھیں کہ علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی کا یہ خاندان دنیا بھر کے تمام مسلم خاندانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اصل میں انسان کسی بھی لائق اسی وقت بن پاتا ہے جب اس کے والدین اس کی تربیت صحیح نہج پر کریں۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کو مستقبل میں جو بننا ہوتا ہے وہ سات آٹھ سال کی عمر میں ہی بن جاتا ہے۔ اگر اس دور میں بچے کی صحیح تربیت ہوگئی تو وہ وہی بنے گا جو اس کے والدین اسے بنانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر فریدہ اور ان کے عظیم بھائی قائدِ اہلِ سنت علامہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کی تربیت اسی زاویے سے کی گئی تھی۔ وہ چاہتے تو کوئی شرف حاصل نہ کر کے اور کوئی کارنامہ انجام نہ دے کر اپنے والد کی عظمت ورفعت سے فائدہ اٹھاتے اور ان کے مریدوں سے دست بوسی کرواتے مگر انہوں نے اس عظیم و جلیل شرف کے باوجود اپنی جد وجہد، اپنی خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کے وسیلے سے یہ رتبۂ بلند حاصل کیا اور خانقاہوں کے شاہ زادگان کویہ درسِ عمل دے گئے۔

مبلغِ اسلام علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کے بچے ان خانقاہوں اور ان افراد کی طرح نہیں تھے جو پدرم سلطان بود کا نعرہ لگا کر اپنی عزت تلاش کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ زندہ قوموں کی یہی علامت ہوتی ہے۔ ورنہ یہ تو صریح مردہ دلی اور حیات کے تقاضوں سے راہ فرار اختیار کرنا ہے کہ اپنے آباو اجداد کا نام لے کر اپنی عظمت کا سکہ بٹھانے کی ناکام کوشش کی جائے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آج کے اکثر مسلمان کہتے ہیں کہ ہم وہ ہیں کہ ہمارے اسلاف نے یہ کیا، ہمارے اسلاف نے یہ چیز دریافت کی، ہم نے دنیا کا رخ پلٹ دیا، ہم نے سمندروں میں گھوڑے ڈال دیے اور ہماری صلاحیت سے دنیا یہ یہ فائدے حاصل کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بے شک یہ ساری باتیں صحیح ہیں مگر جناب آپ نے کیا کیا؟۔ جنہوں نے کیا وہ تو گزر گئے، انہیں جو کچھ کرنا تھا وہ کر گزرے مگر آپ نے ان کے چھوڑے ہوئے کام کو کتنا آگے بڑھایا ؟ آپ آگے کیا بڑھاتے، آپ تو ان کے کام کی قدر و حفاظت بھی نہ کر سکے۔ مبلغِ اسلام کے بچوں نے نہ صرف یہ کہ ان کے چھوڑے ہوئے کام کی حفاظت کی بلکہ اسے بہت حد تک آگے بڑھایا۔

Allama Shah Ahmed Noorani

Allama Shah Ahmed Noorani

مبلغِ اسلام جانتے تھے کہ اسلام صرف ایک نظام، محض ایک مذہب، ایک تحریک، ایک فلسفہ نہیں بلکہ وہ پوری زندگی پر محیط ایک مکمل دین ہے۔ تبلیغِ اسلام کی مصروفیات نے انہیں اسلام کے دوسرے پہلوؤں کی عملی تبلیغ کی فرصت نہیں دی تو یہ کام ان کی بیٹی اور ان کے بیٹے قائدِ اہلِ سنت علامہ شاہ احمد نورانی نے سنبھال لیا۔ آفریں صد آفریں۔ عام آدمی اور بڑے آدمی میں فرق یہ ہے کہ عام آدمی سماج کے مروجہ ذہنی سانچوں سے باہر نہیں نکل پاتا جب کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو سماج کے بر خلاف صحیح رخ پر سوچتا اور عمل کرتا ہے وہ سماج سے اکتساب تو کرتا ہے مگر اس کا اسیر نہیں ہوتا۔ اس اعتبارسے دیکھیں تو عظیم حوصلوں، جذبوں اور ولولوں سے گندھی مجاہدہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی ہمارے معاشرے کی ایک بڑی شخصیت ہیں اور ان حضرات کے لیے نشانِ عبرت جو سماج کے بندھے ٹکے نظام سے نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ تنگ نظری اور تعصب سے الگ ہٹ کر دیکھا جائے تو ڈاکٹر فریدہ کی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔ کم از کم برصغیر کی حد تک تو یہ بالکل نایاب ہے۔ اس طور سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر فریدہ نے برصغیر میں ملتِ اسلامیہ کی خواتین کی طرف سے تن تنہا فرض کفایہ ادا کیا ہے۔

انسانی شخصیت کا کمال تو جب ہے جب اس کی نظر افراد سازی پر ہو۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ کامیاب والد کے انتقال کے بعد اس کے بچے اس کی وراثت نہیں سنبھال پاتے کیونکہ والد اپنی ہی ذمے داریوں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں اپنے کاموں سے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے بچوں کی عملی تربیت کی طرف چاہ کر بھی متوجہ نہیں ہو پاتے یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بڑے لوگ صحیح معنوں میں اپنے بچوں کو اپنا نائب نہیں بنا پاتے۔ مبلغِ اسلام نے اپنی عظیم ترین اور کثیر مصروفیات کے باوجود اس طرف سے آنکھیں بند نہ رکھیں اور اپنے بیٹے تو درکنار بیٹی کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ خاتون اسلام کی تاریخ میں گوہرِ نایاب کی حیثیت سے زندہ و تابندہ ہوگئیں۔ یہ سب تربیت کا شاخسانہ ہے اور آج کے والدین کے لیے نمونۂ عمل۔ ڈاکٹر فریدہ نے بھی ”خواتین اسلامی مشن” قائم کر کے سیکڑوں خواتین کو تبلیغِ اسلام کے لیے تیار کیا کہ ان کے بعد یہ خواتین کی قیادت سنبھال سکیں۔ اس جہت سے دیکھیں تو ڈاکٹر فریدہ اور ان کے والد گرامی کی شخصیت کا ایک اور پہلو نمایاں ہو گا۔

ڈاکٹر فریدہ نے ثابت کر دیا کہ میرے والد تقریباً پچاس سالوں تک دنیا بھر میں گھوم گھوم کر غیر مسلموں میں اعلان کرتے رہے کہ اسلام عورت کی ترقی میں کہیں بھی رکاوٹ نہیں اور اسلام حیاتِ انسانی کی عملی جد وجہد کا نام ہے۔ اس عظیم بیٹی نے اپنے باپ کے اس اعلان کو محض اعلان نہ رہنے دیا بلکہ اس کی تعبیر و تشکیل میں خود کو آ گے کردیا گویا ڈاکٹر فریدہ اپنے والدِ گرامی کے ”متن”کی”شرح”بن کر سامنے آئیں۔ اس طرح ان کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ ”میری یہ بیٹی اسی طرح خواتین میں تبلیغ کرے گی جس طرح میں مَردوں میں کر رہا ہوں۔” اس عظیم صدیقی خاندان کی خدمات پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی بہت ساری خدمات ابھی زیبِ قرطاس نہ ہو سکیں۔ ممکن ہے کہ اب ان کے وصال کے بعد پوری تفصیل اور جامعیت کے ساتھ وہ شائع ہو جائیں۔ اللہ عزوجل ان کی قبر کو رحمت ونور سے بھردے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے اوران کے نقوشِ حیات ہماری ماؤں اور بہنوں کے لیے خضرِ راہ بنائے۔

تحریر : صادق رضا مصباحی
رابطہ:09619034199
EMAIL:sadiqraza92@gmail.com